پہلگام حملہ: انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سیاحت کو دھچکہ

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا لیکن 22 اپریل کے واقعے نے سیاحت کے پورے شعبے کو بحران میں مبتلا کر دیا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو فائرنگ سے نہ صرف انڈین شہریوں کی اموات ہوئیں بلکہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو بھی شدید دھچکا پہنچا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ڈل جھیل میں ہوٹل چلانے والے فیروز احمد اُن دنوں اپنے ہوٹل میں مسلسل بکنگ اور سیاحوں کا استقبال کرنے میں مصروف تھے لیکن 22 اپریل کو ہونے والے حملے نے ان کی زندگی اور دیگر سینکڑوں مقامی لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔

فیروز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہم نے مئی تک بکنگ لے رکھی تھی۔ ہم رقم کا 25 فیصد پیشگی لیتے ہیں۔ اب ہمیں ان تمام سیاحوں کو رقم واپس کرنی ہوگی۔‘

یہ مسئلہ صرف فیروز کا نہیں بلکہ وادی کشمیر میں سیاحت کے کاروبار سے وابستہ ہزاروں لوگوں کا ہے۔ ایک ہی جھٹکے میں وہ اپنی روزی کھو بیٹھے جسے انہوں نے برسوں کی محنت سے دوبارہ بنایا تھا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحت نہ صرف خوبصورتی کی علامت ہے بلکہ معیشت کا ایک اہم محور بھی ہے۔

اپریل سے اکتوبر تک کا عرصہ کشمیر کے سیاحتی موسم کا سنہری وقت ہے۔ ہوٹل، ٹیکسی والے، دستکاری کی تجارت اور مقامی بازار اس دوران سب سے زیادہ کماتے ہیں۔

اس سال کا آغاز بھی بہت امید افزا رہا۔ سری نگر کے مشہور ٹیولپ گارڈن میں صرف 26 دنوں میں 8.5 لاکھ سیاح آئے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا لیکن 22 اپریل کے واقعے نے سیاحت کے پورے شعبے کو بحران میں مبتلا کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملے کے فوراً بعد وادی میں سیاحوں کی بکنگ میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ زیادہ تر سیاحوں نے اپنی بکنگ منسوخ کر دی ہے۔ مجموعی طور پر 13 لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے ایڈوانس بکنگ کرائی تھی لیکن اب منسوخی کا سلسلہ رکنے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

ٹور آپریٹرز کا کہنا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے لوگوں میں جو تھوڑا سا اعتماد تھا وہ مکمل طور پر ٹوٹ گیا ہے۔

ہاؤس بوٹ مالکان، ہوٹل مالکان، کاریگروں اور ٹرانسپورٹرز کے چہروں پر مایوسی صاف دکھائی دے رہی ہے۔

پہلگام واقعہ صرف مقامی یا قومی سطح تک محدود نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔

انڈین حکومت نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر ڈالا اور کئی سخت اقدامات کیے۔ انڈیا نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا، پاکستان کے ویزوں کو منسوخ، شہریوں کو ملک چھوڑ دینے اور سفارتی عملے کی تعداد کو محدود کرنے جیسے اقدامات کیے۔

اس کے جواب میں پاکستان نے انڈین مسافر طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید بگڑ گئے اور علاقائی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلگام واقعہ نہ صرف ایک ہولناک سانحہ تھا بلکہ کشمیر کی سیاحت پر مبنی معیشت کے لیے بھی شدید دھچکا ثابت ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا