پاکستان نے چینی جہازوں سے انڈیا کے جدید لڑاکا طیارے کیسے مار گرائے؟

انڈین حکام کے مطابق ناقص انٹیلی جنس کی وجہ سے رفال طیاروں کے پائلٹ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ پاکستان کی فائرنگ کی حدود سے باہر ہیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پی ایل 15 میزائل کی رینج 150 کلومیٹر کے قریب ہے، جو اس میزائل کے برآمدی ورژن کی مشہور رینج ہے۔

آٹھ اکتوبر 2019 کو ڈسالٹ ایوی ایشن کی ورکشاپ میں فرانسیسی ساختہ رافیل جیٹ فائٹر کو اسمبل کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

انڈیا کے دو اور تین پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں سے کی گئی بات چیت کے مطابق حالیہ پاکستان انڈیا جنگ میں رفال کو گرائے جانے میں اس کی کارکردگی اصل مسئلہ نہیں تھی۔

اس کے مار گرائے جانے میں انڈین انٹیلی جنس کی وہ ناکامی بنیادی وجہ بنی جس کے تحت چین کے تیار کردہ پی ایل 15 میزائل کی اصل رینج کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا۔ جے 10 طیارے جنہیں ’وگرس ڈریگنز‘ بھی کہا جاتا ہے اور پی ایل 15 میزائل صرف چین اور پاکستان ہی استعمال کرتے ہیں۔

سات  مئی 2025 کو نصف شب کے کچھ ہی دیر بعد، پاکستان فضائیہ کے آپریشن روم میں نصب سکرین سرخ روشنیوں سے بھر گئی جس پر انڈیا کی سرحد کے اس پار درجنوں دشمن طیاروں کی پوزیشن ظاہر ہو رہی تھی۔

ائیر چیف مارشل ظہیر احمد سدھو کئی دنوں سے اسی کمرے کے قریب ایک گدے پر سو رہے تھے، کیوں کہ انہیں انڈیا کے حملے کا پہلے سے اندازہ تھا۔

نئی دہلی نے اسلام آباد پر الزام لگایا کہ وہ گذشتہ ماہ انڈین کشمیر میں ہونے والے اس حملے کے پیچھے ہے جس میں 26 شہریوں کی جان گئی۔ اسلام آباد نے اس میں کسی بھی طرح کے کردار سے انکار کیا تاہم انڈیا نے جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا جو سات مئی کو علی الصبح پاکستان پر فضائی حملوں کی صورت میں عملی طور پر سامنے آیا۔

فضائیہ کے سربراہ نے پاکستان کے جدید چینی ساختہ جے 10 سی طیاروں کو فوری اڑنے کا حکم دیا۔ آپریشن روم میں موجود ایک اعلیٰ پاکستانی فضائیہ اہلکار نے بتایا کہ سدھو نے عملے کو انڈیا کے فرانسیسی ساختہ رفال لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی جو انڈین فضائی بیڑے کا فخر تھے اور اس سے پہلے جنگ میں کبھی کوئی طیارہ نہیں گرایا گیا تھا۔

فضائیہ کے افسر کا کہنا تھا کہ ’وہ رفال کو مار گرانا چاہتے تھے۔‘

ماہرین کے اندازوں کے مطابق رات کی تاریکی میں ہونے والی تقریباً ایک گھنٹے طویل اس لڑائی میں 110 کے قریب طیاروں نے حصہ لیا جس سے یہ لڑائی گذشتہ کئی دہائیوں میں دنیا کی سب سے بڑی فضائی جنگ بن گئی۔

 روئٹرز نے مئی میں امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ جے 10 طیاروں نے کم از کم ایک رفال طیارہ مار گرایا۔ اس لڑاکا طیارے کے مار گرائے جانے نے فوجی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور مغربی عسکری ساز و سامان کی چینی ہتھیاروں کے مقابلے میں صلاحیت پر سوال کھڑے کر دیے۔

 رفال بنانے والی فرانسیسی کمپنی داسو کے حصص کی قیمتیں بھی گر گئیں۔ انڈونیشیا جس نے پہلے رفال طیارے آرڈر کر رکھے تھے، اب جے 10 طیاروں کی خریداری پر غور کر رہا ہے جو چین کے لیے بیرون ملک طیارے فروخت کرنے میں بڑی کامیابی ہوگی۔

انڈین حکام کے مطابق ناقص انٹیلی جنس کی وجہ سے رفال طیاروں کے پائلٹ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ پاکستان کی فائرنگ کی حدود سے باہر ہیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پی ایل 15 میزائل کی رینج 150 کلومیٹر کے قریب ہے، جو اس میزائل کے برآمدی ورژن کی مشہور رینج ہے۔

پاکستانی فضائیہ کے اہلکار نے کہا کہ ’ہم نے انہیں گھات لگا کر نشانہ بنایا۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد نے انڈین طیاروں کے پائلٹس کو دھوکہ دینے کے لیے الیکٹرانک وارفیئر (برقی جنگ) کا بھی سہارا لیا۔ انڈین حکام ان کوششوں کے مؤثر ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

لندن کے دفاعی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے فضائی جنگ کے ماہر جسٹن برونک کے بقول: ’انڈین پائلٹ حملے کی توقع ہی نہیں کر رہے تھے اور پی ایل 15 طویل فاصلے پر مار کرنے کے لیے واضح طور پر بہت مؤثر ہے۔‘

پاکستانی حکام کے مطابق رفال پر پی ایل 15 میزائل تقریباً 200 کلومیٹر کی دوری سے فائر کیا گیا۔ انڈین حکام کے مطابق یہ فاصلہ اس سے بھی زیادہ تھا۔ یہ حملہ فضائی جنگ کی تاریخ میں سب سے طویل فاصلے کے فضا سے فضا میں کیے گئے حملوں میں سے ایک ہونا تھا۔

انڈیا کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ نے انٹیلی جنس کی غلطیوں پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

نئی دہلی نے سرکاری طور پر کسی رفال کے مارے جانے کو تسلیم نہیں کیا، لیکن جون میں فرانس کے فضائی سربراہ نے کہا کہ انہوں نے رفال اور انڈیا کے دو دیگر طیاروں کی تباہی کے شواہد دیکھے ہیں، جن میں ایک روسی ساختہ سخوئی بھی شامل ہے۔

 داسو کے اعلیٰ عہدےدار نے بھی جون میں فرانسیسی ارکان پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ انڈیا نے آپریشنز کے دوران ایک رفال طیارہ کھویا تاہم ان کے پاس تفصیلات نہیں تھیں۔

پاکستانی فوج نے اپنے ترجمان کے ماضی میں دیے گئے بیان کی جانب اشارہ کیا جس میں کہا گیا کہ اسلحے سے زیادہ اہم پیشہ ورانہ تیاری اور عزم تھا۔

چین کی وزارت دفاع، داسو اور سخوئی بنانے والی کمپنی یو اے سی نے بھی روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

’صورت حال کا ادراک‘

روئٹرز نے اس لڑائی کی جزئیات اکٹھی کرنے کے لیے آٹھ پاکستانی اور دو انڈین حکام سے بات چیت کی جس نے دونوں ایٹمی طاقت رکھنے والے پڑوسی ممالک کے درمیان چار روزہ جنگ کا آغاز کیا اور واشنگٹن میں تشویش پیدا کی۔ تمام حکام نے قومی سلامتی کے معاملات پر بات کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی۔

حکام کے مطابق اسلام آباد کو نہ صرف اپنے میزائلوں کی اصل رینج سے متعلق برتری حاصل تھی بلکہ پاکستانی افواج نے اپنے فوجی سازوسامان کو زمین اور فضا میں نگرانی کے ساتھ بہتر انداز میں منسلک کیا جس سے جنگی صورت حال واضح ہو گئی۔ ایسی نیٹ ورکنگ کو ’کل چین‘ کہا جاتا ہے، جو جدید جنگ کا اہم جزو ہے۔

پاکستانی اور انڈین حکام کے مطابق اسلام آباد نے نہ صرف اپنے میزائلوں کی رینج کے ساتھ حیران کن حملہ کیا، بلکہ اس نے اپنے فوجی سازوسامان کو زمینی اور فضائی نگرانی کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے جوڑا جس سے اسے میدان جنگ کا زیادہ واضح منظر ملا۔

چار پاکستانی حکام نے بتایا کہ انہوں نے فضائی، زمینی اور خلائی سینسرز کو جوڑ کر ’کل چین‘ یا کثیر جہتی آپریشن بنایا۔ دو پاکستانی حکام نے بتایا کہ اس نیٹ ورک میں پاکستان کے تیار کردہ سسٹم، ڈیٹا لنک 17، شامل تھا، جس نے چینی فوجی سازوسامان کو دیگر آلات، جیسے کہ سویڈن کے بنے ہوئے نگرانی کے طیارے کے ساتھ جوڑا۔

ماہرین کے مطابق اس سسٹم نے انڈیا کے قریب پرواز کرنے والے جے 10 طیاروں کو دور پرواز کرنے والے نگرانی کے طیارے سے ریڈار فیڈ حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا، یعنی چینی ساختہ لڑاکا طیارے اپنے ریڈار بند کر کے بغیر پتہ لگے اڑ سکتے تھے۔

پاکستان کی فوج نے اس بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

انڈین حکام نے بتایا کہ دہلی بھی اسی طرح کا نیٹ ورک بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ان کا عمل زیادہ پیچیدہ ہے کیوں کہ انڈیا مختلف ممالک سے طیارے درآمد کرتا ہے۔

برطانیہ کے ریٹائرڈ ایئر مارشل گریگ بیگ ویل جو اب آر یو ایس آئی میں فیلو ہیں، نے کہا کہ اس واقعے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چینی یا مغربی فضائی اثاثے بہتر ہیں، لیکن اس سے درست معلومات حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

بیگ ویل نے کہا کہ ’اس میں فاتح وہ فریق تھا جس کے پاس صورت حال کے بارے میں بہترین آگاہی تھی۔‘

حکمت عملی میں تبدیلی

سات مئی کو علی الصبح انڈیا نے پاکستان میں اہداف کو نشانہ بنایا جنہیں وہ دہشت گردوں کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے رہا تھا۔ اس کے فوراً بعد سدھو نے اپنے سکواڈرنز کو دفاعی حکمت علمی چھوڑ کر حملہ کرنے کا حکم دیا۔

پاکستان فضائیہ کے پانچ اہلکاروں نے بتایا کہ انڈیا نے تقریباً 70 طیارے تعینات کیے جو ان کی توقع سے کہیں زیادہ تھے، جس سے پاکستانی پی ایل 15 میزائلوں کو ہدف تلاش کرنے کے لیے بہترین ماحول مل گیا۔ انڈیا نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے طیارے استعمال کیے گئے۔

بیگ ویل نے کہا کہ سات مئی کی لڑائی جدید دور کی وہ پہلی بڑی فضائی جنگ تھی جس میں ہتھیاروں نے بینائی کی حدود سے آگے جا کر اہداف کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس لڑائی کے دوران دونوں ملکوں کے طیارے اپنے اپنے فضائی حدود کے اندر ہی رہے۔

پانچ پاکستانی اہلکاروں کے مطابق انڈین سینسرز اور مواصلاتی نظاموں پر الیکٹرانک حملے نے رفال طیاروں کے پائلٹس کی حالات کی آگاہی  کو کم کر دیا۔

تاہم دو انڈین حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کے دوران رفال طیاروں کی دیکھنے کی صلاحیت متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی انڈیا کے سیٹلائٹس جام ہوئے۔ البتہ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان بظاہر سخوئی طیارے کے سسٹمز میں خلل ڈالنے میں کامیاب ہو گیا جسے اب انڈین حکومت بہتر بنا رہی ہے۔

دیگر انڈین سکیورٹی حکام نے سوالات کو رفال طیاروں جو انڈین فوج کی جدید بنانے کے عمل کا اہم جزو ہیں، سے ہٹا کر فضائیہ کو دیے گئے احکامات کی طرف موڑ دیا ۔

جکارتہ میں تعینات انڈیا کے دفاعی اتاشی نے یونیورسٹی میں ہونے والے سیمینار میں کہا کہ دہلی نے کچھ طیارے ’صرف اس لیے کھوئے کیوں کہ سیاسی قیادت نے یہ پابندی لگائی کہ (پاکستان کے) فوجی اڈوں اور ان کے فضائی دفاعی نظام پر حملہ نہ کیا جائے۔‘

انڈیا چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انیل چوہان نے قبل ازیں روئٹرز کو بتایا کہ دہلی نے ابتدائی نقصانات کے بعد فوری طور پر اپنی ’جنگی حکمت عملی کو درست‘ کیا۔

سات مئی کی فضائی لڑائی کے بعد انڈیا نے پاکستانی فوجی ڈھانچے کو نشانہ بنانا شروع کیا اور آسمان میں اپنی طاقت دکھائی۔ دونوں فریقوں کے حکام کے مطابق انڈین ساختہ براہموس سپر سونک کروز میزائل نے بار بار پاکستان کے فضائی دفاعی نظام کو توڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

10 مئی کو انڈیا نے کہا کہ اس نے پاکستان میں کم از کم نو فضائی اڈوں اور ریڈار کے مقامات پر حملہ کیا۔ انڈین اور پاکستانی حکام کے مطابق اس نے جنوبی پاکستان میں ہینگر میں کھڑے  نگرانی کے لیے استعمال ہونے طیارے کو بھی نشانہ بنایا۔ بعد ا زاں اسی دن امریکی حکام کی دونوں فریقوں کے ساتھ بات چیت کے بعد جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔

’براہ راست معلومات‘

اس جنگ کے بعد انڈیا کے ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اسے لڑائی کے دوران چین سے ’لمحہ بہ لمحہ معلومات مل رہی تھیں، یعنی ریڈار اور سیٹلائٹ فیڈز۔ انہوں نے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیا اور اسلام آباد نے اس الزام کی تردید کی۔

جولائی میں دی گئی بریفنگ میں جب بیجنگ اور پاکستان کے فوجی تعاون کے بارے میں پوچھا گیا تو چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ کام ’دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعاون کا حصہ ہے اور اس کا ہدف کوئی تیسرا فریق نہیں۔‘

پاکستان فضائیہ کے دو اہلکاروں نے بتایا کہ جولائی میں چینی  فضائیہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل وانگ گانگ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس بات پر گفتگو کی کہ اسلام آباد نے چینی سازوسامان کو استعمال کرتے ہوئے رفال طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے ’کل چین‘ کیسے تیار کیا۔

چین نے اس رابطے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا۔ پاکستانی فوج نے جولائی میں جاری بیان میں کہا کہ وانگ نے ’پاکستان فضائیہ کے ملٹی ڈومین آپریشنز کے جنگ میں آزمودہ تجربے سے سیکھنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا