نیپال میں رکشہ ڈرائیور اور اُس کا کتا سیاحوں کے دل جیتنے لگے

رکشہ ڈرائیور تامانگ جب کام پر جاتے ہیں تو ان کا کتا ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر پیار بھی کرتے ہیں۔

اب چوں کہ گرمی اپنے عروج پر ہے، اس لیے دوپہر کے وقت شیام رکشے کے نیچے سایہ ڈھونڈتا ہے (اے پی)

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے سیاحتی مرکز تھامل میں کئی سائیکل رکشہ ڈرائیور سیاحوں کو اس رنگا رنگ علاقے کی سیر کرانے کے لیے بے تابی سے انتظار کرتے ہیں۔

لیکن بابو تامانگ کے رکشے میں کچھ خاص بات ہے، یعنی ایک خوش مزاج دم ہلاتا ہوا، نارنجی اور سفید رنگ کا کتا، جسے دیکھ کر مسافر خوش ہو جاتے ہیں اور اکثر اس محنتی شخص کو اضافی ٹپ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے آٹھ سالہ کتے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہیں۔

57 سالہ تامانگ ہمیشہ سے کتوں کے شوقین رہے ہیں۔ دو سال پہلے وہ بے حد افسردہ ہو گئے جب ان کی بیوی نے بتایا کہ ان کے آبائی گاؤں میں، جو نیپال کے دارالحکومت سے چھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے، اُن کے 10 سالہ کتے ’پُتلے‘ کو چیتے نے مار ڈالا۔

اپنے اس وفادار ساتھی کے غم میں ڈوبے ہوئے تامانگ کو ایک دن اس گیراج میں، جہاں وہ اپنا رکشہ کھڑا کرتے تھے، ایک بے سہارا کتا نظر آیا۔

تامانگ مسکرا کر کہتے ہیں ’وہ مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ اس شہر میں خاندان سے دور رہتے ہوئے، شیام ہی میرا سب سے قریبی ساتھی بن گیا ہے۔‘

شیام روزانہ اپنے مالک کے ساتھ کام پر جاتا ہے۔ جب تامانگ کو کوئی سواری ملتی ہے تو شیام رکشے کے پیچھے پیچھے چلتا ہے، جسے دیکھ کر راہ گیر مسکراتے ہیں اور اسے پیار کرتے ہیں۔

جیسے ہی سواری ختم ہوتی ہے اور کرایہ ادا ہو جاتا ہے، تامانگ اشارہ کرتے ہیں اور شیام فوراً رکشے پر اچھل کر بیٹھ جاتا ہے۔

اب چوں کہ گرمی اپنے عروج پر ہے، اس لیے دوپہر کے وقت شیام رکشے کے نیچے سایہ ڈھونڈتا ہے۔

تامانگ ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’وہ چین پر لگے تیل سے داغ لگا لیتا ہے، جس کے بعد مجھے اسے نہلانا پڑتا ہے۔ اسے نہانے کا بالکل شوق نہیں اور اکثر اس بات پر ہماری چھوٹی موٹی لڑائی ہو جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تامانگ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں دو دیگر رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ رہتے ہیں جو شیام کی مستقل موجودگی کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔

واحد موقع جب وہ اپنے کتے سے جدا ہوتے ہیں، وہ ان کا اپنے گاؤں جانا ہے۔

تامانگ کہتے ہیں ’پبلک بسوں میں کتوں کو لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، اس لیے مجھے اسے گیراج میں اپنے مکینک دوست کے پاس چھوڑ کر جانا پڑتا ہے، جو میرے لیے بہت افسوس کی بات ہوتی ہے۔‘

دن بھر کی سخت محنت کے بعد، جب سورج غروب ہونے لگتا ہے اور گلیوں میں بتیاں روشن ہو جاتی ہیں، تامانگ کا رکشہ آہستہ آہستہ گھر کی جانب روانہ ہوتا ہے اور ان کے پیچھے قابل بھروسہ شیام بھی قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے۔

’وہ صرف کتا نہیں، وہ میرا خاندان ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا