اسلام آباد: کیا شیلٹر میں واقعی کتوں سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے؟

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک وڈیو منظر عام پر آئی جس میں سی ڈی اے پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ اس کے زیر انتظام کتوں کی پناہ گاہ ’کتوں کو اذیت دینے اور قتل کرنے‘ میں ملوث ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نےحقائق جاننے کے لیے مذکورہ مرکز کا دورہ کیا۔

چند روز قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ اس کے زیر انتظام کتوں کی پناہ گاہ /ڈاگ شیلٹر کا ’کتوں کو اذیت دینے اور قتل کرنے‘ میں ملوث ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے سی ڈی اے حکام سے رابطہ کیا اور کتوں کے حفاظتی مرکز کا دورہ بھی کیا۔ 

ان پر الزام عائد کیا گیا کہ ’گذشتہ چند سالوں میں سی ڈی اے نے ہزاروں کتوں کو سڑکوں سے اٹھایا ہے اور انہیں سپے/ نیوٹر کرنے کے بہانے بے رحمی سے قتل کر دیا۔ ویڈیو میں دکھائے جانے والے مناظر اسلام آباد میں سی ڈی اے کے ماتحت ’ایس ڈی پی سی سی‘ سہولت میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔‘

یہ ویڈیو اسلام آباد کے شہری جو جانوروں سے مانوس اور ان کی نگہداشت کے لیے فکر مند ہیں، کی جانب سے اس ادارے کا دورہ کر کے بنائی گئی۔

ویڈیو میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ’کتوں کو بے رحمی سے پکڑ کر تنگ و تاریک پنجروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ انہیں بھوکا، طبی امداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اور وہ بیماریوں اور خطرناک کیڑوں کے انفیکشن کے باعث انتہائی اذیت ناک موت مرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کیڑے ان کے زندہ جسم کو چاٹ چاٹ کر کھا جاتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے سے متعلق جاننے کے لیے سی ڈی اے حکام سے رابطہ کیا اور کتوں کے حفاظتی مرکز کا دورہ بھی کیا۔ 

ڈائیریکٹر میونسپلٹی انعم فاطمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سی ڈی اے کے ’متعلقہ نگران افسر کو غفلت برتنے پر معطل کیا گیا ہے جن کا کام اس پناہ گاہ میں کتوں کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ عید کے دنوں میں ٹکس کتوں کو زیادہ پڑ گئی تھیں۔‘

انہوں نے کہا ’ہفتے میں تین مرتبہ اسلام آباد کی بارانی یونیورسٹی سے جانوروں کے ڈاکٹر پناہ گاہ کا دورہ کرتے ہیں اور ٹکس وغیرہ کی دوائی یا شیمپو دے دیتے ہیں۔ سی ڈی اے کے پاس یہ ادارہ چلانے کے مالی وسائل نہیں ہیں اور پناہ گاہ میں کھانا بھی اداروں کی سماجی ذمہ داری کے تحت دیا جاتا ہے۔‘

کتوں کی پناہ گاہ سے متعلق مزید جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وہاں کا دورہ کیا۔ پناہ گاہ پہنچنے پر ادارہ کے انتظامات پر مامور رضوان سرور نے اس سے متعلق دیگر تفصیلات فراہم کیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رضوان سرور کے مطابق پناہ گاہ میں ’صرف وہی کتے لائے جاتے ہیں جن کی فوری نگہداشت کرنا ہوتی ہے یا جو پرتشدد رویہ رکھتے ہیں۔ یہاں لائے جانے والے کتوں کو تقریباً آٹھ سے 10 روز کے لیے پناہ گاہ میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں ویکسین لگائی جاتی ہے، نہلایا جاتا ہے، دن میں دو وقت کھانا اور متعدد مرتبہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔‘

تاہم صورت حال اس سے کچھ مختلف نظر آئی۔ پناہ میں چند کتوں کے جسموں پر کیڑے (ٹکس) تھے جو انتہائی کم تعداد میں تھے۔ انڈپینڈنٹ نے متعلق نگران افسر سے اس سے متعلق پوچھا کہ یہ ٹکس یا جو بھی کیڑے ہیں، پناہ گاہ میں لائے جانے کے باوجود کیوں موجود ہیں؟ 

نگران نے کہا: ’یہ کتا آج ہی باہر سے لایا گیا ہے اور باہر سے یہ کتے ایسے ہی لائے جاتے ہیں جبکہ ایک اور کتے کے جسم پر کچھ کیڑے تھے، اس سے متعلق پوچھا کہ اسے تو آج نہیں لایا گیا ہو گا؟ جس پر نگران نے جواب دیا نہیں اسے آج پناہ گاہ نہیں لایا گیا تاہم یہ کیڑے نکلنے میں وقت لگتا ہے۔

نگران نے بتایا کہ ’2025 میں مئی تک اس پناہ گاہ میں 378 کتے لائے گئے جن میں سے 56 کو نیوٹر/نس بندی کی گئی، جو کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔‘

پناہ گاہ صاف ستھری نظر آئی لیکن وہاں موجود کوئی کتا بھی حملہ آور/ پرتشدد نہیں لگا۔ اس سے متعلق نگران نے بتایا کہ چونکہ ہم ’دوپہر کے وقت یہاں آئے ہیں اور گرمی کی شدت بھی زیادہ ہے اس لیے کتے اتنے active نظر نہیں آ رہے، شام کے وقت جب درجہ حرارت میں کمی ہوگی تو یہی کتے بہت active ہو جائیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے دیکھا کہ کئی کتے گرمی کی شدت سے زمین بار بار کھود کر اس پر بیٹھ رہے تھے یا پیالوں میں موجود پانی میں بار بار اپنے پاوں ڈال رہے تھے، نگران نے بتایا کہ گرمی کی وجہ سے کتے ایسا کرتے ہیں۔  

سوال کیا گیا کہ گرمی کی شدت کے باعث کتے اگر ایسا کر رہے ہیں تو کیا یہاں کوئی مصنوعی تالاب موجود نہیں ہے؟ اس پر نگران افسر نے جواب دیا کہ پناہ گاہ میں ہاوزی موجود ہے تاہم ڈینگی کی وجہ سے اسے ہر وقت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ 

رضوان سرور نے بتایا کہ ’پناہ گاہ میں اس وقت 18 آوارہ کتے موجود ہیں جو سات سے آٹھ روز کے لیے یہاں لائے جاتے ہیں۔‘

دوسری جانب اسلام آباد کے شہریوں کی بڑی تعداد سی ڈی اے کے زیر انتظام پناہ گاہ میں ’شدید غفلت‘ برتنے پر احتجاج بھی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پناہ گاہ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے تاکہ جو افراد کتوں کی درست نگہداشت کرنا جانتے ہیں وہ یہ کام کر سکیں۔ 

سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ’یہ مرکز مکمل طور پر کیڑوں (ٹکس) سے بھرا ہوا ہے اور اب محفوظ نہیں رہا، باوجود اس کے کہ سی ڈی اے اسے محفوظ قرار دے رہا ہے۔‘

وردا غنی، جو سٹرے ڈاگز این جی او کی منتظم ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پناہ گاہ اب بظاہر صاف نظر آ رہی ہو گی لیکن وہاں اکثر صفائی ہوتی ہے نہ ہی جانوروں کو صاف کھانا دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی نگہداشت کی جاتی ہے۔ 

انہوں نے حکومت سے پناہ گاہ کو پبلک پراوئیویٹ اشتراک سے چلانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ افراد کتوں کی دیکھ بھال کر سکیں جو واقعی ان کے لیے فکر مند ہیں یا ان کا خیال رکھنا جانتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات