انڈیا: خواجہ سراؤں کے شیلٹر ہومز جو ’لاوارث بچہ‘ بن گئے ہیں

حکومت کے فنڈز بند کرنے کے بعد خواجہ سرا اب ان مقامات سے الگ ہو رہے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

انڈین حکومت نے 2021 میں سمائل سکیم کے تحت خواجہ سراؤں کے لیے بنائے گئے شیلٹر ہومز کے لیے مختص فنڈ کو بند کر دیا تھا۔

انڈیا کی مختلف ریاستوں میں خواجہ سراؤں کے لیے 12 گریما گرہ (عزت گھر) بنائے گئے تھے۔ حکومت کے فنڈز بند کرنے کے بعد خواجہ سرا اب ان مقامات سے الگ ہو رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے مطابق اس کی وجہ ان کے مسائل کا حل نہ ہونا اور حکومت کا فنڈز جاری نہ کرنا ہے۔

حالانکہ یہ شیلٹر ہومز خواجہ سراؤں کے لیے بہت ضروری ہیں، اس کے باوجود خواجہ سرا ان شیلٹر ہوم سے دور ہو رہے ہیں۔

شیلٹر ہومز میں زیادہ تر کم عمر کے خواجہ سرا ہوتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے ہنر سیکھ کر عزت کی زندگی گزارنے کے خواہش مند ہیں۔

حالیہ بجٹ 24۔2023 میں خواجہ سراؤں کی بہبود کے لیے مختص بجٹ میں بھی گریما گرہ کو چلانے کا کوئی واضح منصوبہ نہیں دیا گیا۔ جس سے یہ اندیشے یہ واضح ہونے لگے ہیں کہ حکومت ان شیلٹر ہومز کو چلانے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی۔

اب حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ سارے شیلٹر ہومز کے فنڈ ختم ہوچکے ہیں، جبکہ وہاں بڑی تعداد میں ٹرانس گرل اور ٹرانس بوائز رہائش پذیر ہیں۔

دہلی کے گریما گرہ کی تربیت یافتہ بیلا شرما، جو اب خود شیلٹر ہوم کی مینجر ہیں، بتاتی ہیں کہ ’ہمارا شیلٹر ہوم متر ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلتا ہے۔ اس کی شروعات سال 2021 میں ہوئی تھی۔ یہ دہلی کا ایسا پہلا آشیانہ ہے جو خواجہ سراؤوں کو حکومت کے ذریعہ دیا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق ’اس گریما گرہ، جس کا مطلب عزت کی زندگی گزارنے کا آشیانہ، ان ٹرانس کے لیے ہیں جن کے پاس کوئی شیلٹر نہیں ہوتا۔ جس کے پاس کوئی جاب نہیں ہوتی۔ یا وہ گھر سے پریشان ہوں۔‘

بیلا شرما کا کہنا ہے کہ ’یہاں خواجہ سراؤں کو تین وقت کا کھانا ملتا ہے۔ دو وقت چائے ملتی ہے۔ ہنر سکھانے کے کورسز ہوتے ہیں۔ انہیں با اختیار بنایا جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے اور ہمارا ہدف ہوتا ہے کہ ہر ایک ٹرانس جینڈر ایک باعزت زندگی گزارے۔ کوئی ملازمت کرے یا اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے۔ بھیک نہ مانگے یا سیکس ورکر نہ بنے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ شیلٹر ہوم اس بات کو یقین دلاتے ہیں کہ کوئی خواجہ سرا روایت کو فالو نہ کر یا سیکس ورکر نہ بنے۔ دراصل ہماری ایک بہت پرانی روایت ہے۔ سب کے اپنے اپنے علاقے ہوتے ہیں۔ وہ ان علاقوں میں بھیک مانگتے ہیں۔ ریڈ لائٹس پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر کسی ٹرانس کے پاس کوئی ملازمت نہیں ہے تو ٹولی بدھائی کرے گی اگر وہ سندر دکھتی ہے یا تھوڑا بہت رقص کرنا جانتی ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ گریماگرہ سے لوگ نکل کر اچھی زندگی گزاریں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب یہ پروجیکٹ (شیلٹر ہوم برائے خواجہ سرا) شروع ہوا تو ہم بہت ہی زیادہ خوش تھے۔ ہم نے بہت سارے خواب سجا لیے تھے کہ اب اور نئی نئی چیزیں آتی رہیں گی لیکن اب یہ حالات ہیں کہ 15 مہینے ہوچکے ہیں اور ابھی تک کوئی فنڈ نہیں آیا ہے۔ سمائل سکیم بند ہو چکی ہے۔ بنیادی طور پر اب گریما گرہ وہ لاوارث بچہ بن گیا ہے، جسے کوئی اپنا نہیں رہا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیلا نے دیگر شیلٹر ہومز کے بارے میں بتایا کہ ’بہت سارے گریما گرہ ایسے ہیں جو قرض پر پیسے لے کر کرایہ ادا کر رہے ہیں۔ جو گھر گروی رکھ کر زیور گروی رکھ کر بچوں کے کھانے کا انتظام کررہے ہیں۔ عطیات جمع کر رہے ہیں۔ جگہ جگہ مہم چلارہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ پروجیکٹ بچایا جاسکے۔ ہمیں صرف اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ جو بہت امیدوں کے ساتھ ہمارے پاس آئے ہیں۔ بہت سارے خواب لے کر ہمارے پاس آئے ہیں کہ وہ یہاں سے کچھ سیکھ کر نکلیں گے۔ یاوہ یہاں سے ایک ملازمت پر جائیں گے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے وہ سب ختم ہوجائے گا۔‘

آسام سے آئی رفایا عظمی جنہوں نے لڑکا بن کر اپنی تعلیم مکمل کی اور وہ ایک لڑکی ہیں اور اپنے آپ کو ٹرانس گرل قرار دیتی ہیں۔

رفایا کہتی ہیں کہ ’میں گذشتہ ایک سال سے گریما گرہ میں رہائش پذیر ہوں۔ میں آسام سے ہوں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ میں ایک ٹرانس گرل ہوں تو مجھے اپنے گاؤں میں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے سکول میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ میرا داخلہ بطور لڑکا ہوا تھا، مجھے الگ الگ نام دے کر ہراساں کیا جاتا تھا جس سے مجھے بہت ہی پریشانی ہوتی تھی۔‘

رفایا مزید بتاتی ہیں کہ ’حکومت کے فنڈز بند کرنے سے ہماری این جی او کے عملے کو  بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔ان کی تنخواہیں کئی مہینوں سے نہیں آ رہی۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے ذاتی خرچوں سے ہمارا خرچ اٹھا رہے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ ابھی میں نے یہاں رکھ کر کچھ کلاسز کیں ہیں۔ انگریزی سیکھی ہے۔ ابھی میں اتنی اہل ہوں کہ میں باہر جا کر ملازمت کرسکتی ہوں مگر ان لوگوں کا کیا ہوگا جو ابھی ابھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔‘

دیو جن کا بچپن لڑکی کا کردار نبھاتے گزرا، اب اپنے کو ٹرانس بوئے کے طور پر متعارف کراتے ہیں، بتاتے ہیں کہ میں گریما گرہ متر ٹرسٹ میں رہتا ہوں۔ جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو میں ایک امید لے کر آیا تھا۔ میں نے سوسائٹی کی وجہ سے ہی اپنا گھر چھوڑا تھا۔ اب جب یہ میرا گھر ہے، تو یہ اجڑنے لگا ہے۔ میں سرکار سے اتنا ہی کہوں گا کہ اگر ایسے این جی اوز ہیں تو آپ برائے مہربانی اس کی مدد کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا