ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ، جس میں امریکہ نے بھی فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر شمولیت اختیار کی، کے بعد ایران اور امریکہ نے مشروط طور پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔
توقع ہے کہ آنے والے ہفتوں میں دوبارہ بات چیت ہوگی، تاہم تاریخوں کا تعین ابھی تک نہیں کیا گیا۔
تاہم ایران براہ راست امریکہ سے بات کرنے کی بجائے معتبر ثالثوں کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات چاہتا ہے۔ تہران کا مؤقف ہے کہ واشنگٹن نے سفارتی روابط کے باوجود اس کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
اپنی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کی تو وہ نئے فضائی حملے کرے گا۔
بہرحال ان اختلافات کے باوجود دونوں فریقین اپنی داخلی، علاقائی اور سٹریٹیجک مفادات کی وجہ سے مشروط طور پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکہ کے لیے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پانا اس لیے اہم ہے کہ وہ قلیل مدتی بحرانوں سے نکل کر ایک وسیع تر حکمتِ عملی اختیار کر سکے، جو نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ کو مدنظر رکھے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی مجموعی سکیورٹی ڈھانچے کو بھی مستحکم کرے۔
مزید یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران اور حماس کے ساتھ معاہدے کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تاکہ ابراہم معاہدے کی سفارت کاری دوبارہ شروع کی جا سکے، جس کے تحت زیادہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کی توقع ہے۔
آخر میں واشنگٹن کی بڑی توجہ ایشیا پیسفک میں چین کو قابو میں رکھنے پر ہے، اس لیے مشرق وسطیٰ میں بدامنی اس کی توجہ اور وسائل کو منتشر کر دے گی۔
ایران کے لیے معاہدہ اس لیے اہم ہے کہ مستقبل میں اس کی فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملوں سے بچا جا سکے۔
امریکہ اور اسرائیل کے فضائی حملوں سے ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصانات سے سنبھلنے کے لیے تہران کو برسوں کی محنت اور اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔
مزید حملے ایران کی مذہبی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس طرح اسرائیل نے ایران کے اعلیٰ فوجی اور جوہری سائنس دانوں کو مارا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں ہر سطح پر جاسوس داخل ہو چکے ہیں۔
لہٰذا ایران کو نہ صرف تباہ شدہ جوہری ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے وقت اور مالی وسائل درکار ہیں بلکہ اپنے نظام سے جاسوسوں کا صفایا کرنے کے لیے بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ایران کا فضائی دفاعی نظام اور میزائل پروگرام بھی کمزور ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ممکنہ معاہدہ ایران کو وقت دے گا کہ وہ اپنے فضائی دفاع اور میزائل پروگرام کی دوبارہ تعمیر کرے۔
ملک کا توپ خانہ کم ذخائر پر چل رہا ہے اور وہ انہیں دوبارہ بھرنے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔
اس وقت ایران کے علاقائی اتحادی جیسے حزب اللہ، حماس اور عراق کی ملیشیائیں اپنی کمزور ترین حالت میں ہیں، اس لیے تہران ان پر اپنے علاقائی مفادات کے تحفظ کے لیے بھروسہ نہیں کر سکتا۔
آخر میں جنگ نے ایران کی پہلے سے کمزور معیشت کو مزید مفلوج کر دیا ہے۔ لہٰذا امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بغیر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے سے نئی پابندیاں لگیں گی جو معیشت کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔
ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ سفارتی مذاکرات کے ذریعے امریکہ کو قائل کرے کہ وہ پابندیاں ختم کرے تاکہ معیشت کی بحالی ہو سکے۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ ٹوئٹر:@basitresearcher
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔