ایران: 11 شوہروں کے قتل کی ملزمہ کو کیسے پکڑا گیا؟

برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق 56 سالہ کلثوم اکبری نے منظم طریقے سے زیادہ عمر کے مردوں سے شادیاں کیں اور پھر انہیں ذیابیطس کی ادویات اور زہریلی الکوحل سے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ حق مہر اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر سکیں۔

ایران میں ایک خاتون کو 22 سال کے دوران اپنے 11 شوہروں کو قتل کرنے کے الزام کا سامنا ہے۔ انہوں نے عدالت کے سامنے اعتراف جرم کر لیا ہے تاہم ابھی تک انہیں سزا نہیں سنائی گئی۔ 

برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں 8 اگست کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق 56 سالہ کلثوم اکبری پر الزام ہے کہ انہوں نے منظم طریقے سے زیادہ عمر کے مردوں سے شادیاں کیں اور پھر انہیں ذیابیطس کی ادویات اور صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زہریلی الکوحل سے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ حق مہر اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر سکیں۔

یہ قتل دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اس لیے بےنقاب نہ ہو سکے کیونکہ متاثرین کی موت ان کی بڑھتی عمر اور پہلے سے موجود بیماریوں کے باعث قدرتی سمجھی جاتی رہیں۔

گرفتاری کے بعد کلثوم اکبری نے تمام قتلوں کا اعتراف کر لیا ہے اور سزا کے انتظار میں ہیں جبکہ متاثرہ خاندانوں کے افراد ان کی سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلسلہ وار قتل کا یہ سلسلہ 2000 میں شروع ہوا اور 2023 تک اس وقت تک جاری رہا جب ان کے آخری شوہر 82 سالہ غلام رضا بابائی کی موت نے پولیس کو متوجہ کیا۔

غلام رضا کے بیٹے کو اس وقت شک ہوا جب ان کے دوست نے بتایا کہ ان کے والد بھی پہلے ایک کلثوم نامی خاتون سے شادی کر چکے تھے جس نے انہیں زہر دینے کی کوشش کی تھی۔

دوست نے کلثوم کو غلام رضا کی حالیہ بیوی کے طور پر پہچان لیا اور پولیس کو اطلاع دی۔

تفتیش کے دوران ملزمہ نے قتلوں کا اعتراف کیا لیکن متاثرین کی درست تعداد بتانے میں وہ تضاد کا شکار رہیں۔

پولیس کے مطابق کلثوم اکبری نے پہلی شادی 18 سال کی عمر میں ایک ایسے شخص سے کی جس کے بارے میں رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ وہ ذہنی مسائل کا شکار تھا اور یہ رشتہ مختصر اور ناکام ثابت ہوا۔

دوسری شادی ایک عمر رسیدہ شخص سے ہوئی جس کے پچھلی شادی سے بچے تھے۔ وہ برسوں شمالی گاؤں میں اس بوڑھے شخص کے ساتھ رہیں اور مبینہ طور پر شوہر اور سوتیلے بیٹوں کے ہاتھوں بار بار مار پیٹ کا شکار ہوئیں۔

شوہر کی موت کے بعد اکبری خواتین کی محفلوں میں شرکت کرنے لگیں جہاں وہ بزرگ، اکیلے مردوں سے شادی میں دلچسپی ظاہر کرتیں۔

وہ ممکنہ شوہروں تک ان کے جاننے والوں کے ذریعے پہنچتیں اور مالی حیثیت کی تصدیق کے بعد بھاری حق مہر پر شادی کے لیے تیار ہو جاتیں۔

اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ بلڈ پریشر، ذیابیطس کی ادویات، نشہ آور گولیاں اور بعض اوقات صنعتی الکوحل ملا کر متاثرین کو آہستہ آہستہ موت کے گھاٹ اتار دیتیں لیکن جب صرف دوائیاں ناکافی ثابت ہوتیں تو وہ تکیے اور تولیے سے گلا  گھونٹ کر اپنے شوہروں کو قتل کر دیتیں۔

قتل کی اکثریتی کارروئیاں شمالی صوبہ مازندران کے مختلف شہروں میں انجام دی گئیں جہاں حکام کو برسوں تک ان اموات کا تعلق جوڑنے میں دشواری ہوئی۔

تصدیق شدہ متاثرین میں 69 سالہ میر احمد عمرانی (2013 میں شادی کے ایک ماہ بعد موت)، 62 سالہ اسماعیل بخش (2016 میں شادی کے دو ماہ بعد موت) اور 83 سالہ گنج علی حمزئی (شادی کے 43 دن بعد موت) شامل ہیں۔

مسیح نعمتی نامی شخص 2020 میں زہر ملا شربت پینے کے بعد بچ گئے جنہوں نے کلثوم کو اپنے گھر سے نکال دیا مگر پولیس کو شکایت نہیں کی۔

بدھ کو ساری کی انقلابی عدالت میں چار متاثرین کے خاندانوں نے اسلامی قانون کے تحت کلثوم کو سزائے موت کا مطالبہ کیا۔

اس مقدمے میں 45 سے زائد مدعی شامل ہیں جن میں براہ راست ورثہ اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں۔ عدالت تمام مدعیوں کے بیانات سننے کے بعد فیصلہ سنائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر