ریپ، قتل اور خفیہ تدفین: ایک انڈین مندر کے متعلق انکشافات

مقامی عدالت میں پیش ہونے والے شخص نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کس طرح ریاست کرناٹک کے مقدس قصبے دھرم استھالا میں 1995 سے 2014 کے درمیان سینکڑوں لڑکیوں اور خواتین کو مبینہ ریپ، تشدد اور قتل کے بعد ان کی باقیات کو خفیہ طریقے سے دفن کیا گیا۔

دھرم استھالا میں ہندوؤں کا مقدس مندر (وینکٹا کرشنا کے/ وکی میڈیا کامنز)

مندر والا قصبہ، پراسرار وِسل بلؤر (راز افشا کرنے والا) اور لرزہ خیز اعتراف۔ دو دہائیوں کے دوران سینکڑوں خواتین اور لڑکیوں کے ریپ، قتل اور خفیہ تدفین کے الزامات نے جنوبی انڈیا کی ریاست کرناٹک کے پرامن مقدس قصبے دھرم استھالا کو ہلا کر رکھ دیا۔

چہرہ سیاہ رنگ کے ہُڈ میں چھپائے، ایک مخبر اس مہینے کے شروع میں مقامی عدالت میں پیش ہوئے، جن کے پاس ہڈیوں کی شکل میں انسانی باقیات بھی تھیں، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ جنسی حملوں کی متاثرہ خواتین کی اجتماعی قبر سے نکالی گئیں۔

اس شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ دھرم استھالا مندر میں محکمہ صفائی کے سابق ملازم ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ خفیہ طور پر سینکڑوں لاشیں ٹھکانے لگائیں، جن میں سے بہت سی لاشوں پر بہیمانہ تشدد اور جنسی حملوں کے نشانات تھے۔

ضلع دکشن کنڑ کے پولیس سربراہ کو دی گئی تحریری شکایت میں مذکورہ شخص، جن کی شناخت حفاظتی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کی گئی، نے بتایا کہ وہ تقریباً 20 سال تک دباؤ میں رہ کر کام کرتے رہے اور پھر 2014 میں اپنے خاندان کے ساتھ فرار ہو کر چھپ گئے۔

جرم اور پشیمانی کے احساس اور ڈراؤنے خوابوں کے باعث، وہ 10 سال سے زائد عرصے کے بعد واپس آئے تاکہ ان ’ہولناک جرائم‘ کو بے نقاب کر سکیں، جن کے وہ مندر میں کام کے دوران مبینہ طور پر عینی شاہد رہے۔

ان کی گواہی اور سینسر شدہ شکایت، جسے دی انڈپینڈنٹ نے دیکھا، کے مطابق لڑکیوں اور خواتین کے مبینہ ریپ، ان پر تشدد اور قتل کے بعد ان کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے واقعات 1995 سے 2014 کے درمیان پیش آئے۔

وسل بلؤر نے مطالبہ کیا کہ ان سینکڑوں لاشوں کو قبر سے نکالا جائے، جنہیں ان کے بقول انہوں نے دفن کیا اور تحقیقات کی جائیں تاکہ ان متاثرہ خواتین کو انصاف مل سکے ’جنہیں موت کے بعد بھی عزت نہ مل سکی۔‘

ان کے وکیل کے وی دھنن جے نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ ایسا مقدمہ ہے، جس کی ’مثال نہیں ملتی،‘ مقدمے کے گواہ نے نہ صرف گواہی دی بلکہ ثبوت بھی پیش کیے اور محاسبے کا مطالبہ کیا۔

دھنن جے نے کہا کہ ’یہ وہ شخص ہیں جو کہتے ہیں کہ انہیں واپس لانے والا قانون کا خوف نہیں بلکہ ضمیر اور اخلاقیات کا خوف ہے۔

عدالتی فیصلوں کی گذشتہ 100 سالہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

وسل بلؤر کے سامنے آنے سے دھرم استھالا اور اس کے گردونواح میں گذشتہ برسوں کے دوران مردہ پائی جانے والی یا لاپتہ ہونے والی سینکڑوں خواتین اور لڑکیوں کے کیسز پر توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔ بہت سے مقدمات کو نظر انداز کیا گیا یا پولیس نے باقاعدہ تفتیش نہیں کی۔

مذکورہ شخص کی شکایت جمع کرانے کے تقریباً دو ہفتے بعد، کرناٹک کی ریاستی حکومت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم قائم کر دی۔

سرسبز مغربی گھاٹ کی پہاڑیوں اور دریائے نیتراوتی کے کنارے آباد دھرم استھالا ہندوؤں کا بڑا مقدس مقام ہے دھرم استھالا ہندوؤں کا بڑا مقدس مقام ہے۔ یہاں قرون وسطیٰ کا شری منجوناتھ مندر موجود ہے، جو دیوتا شیو کے نام پر ہے اور ایک خاندان اس کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ مندر ہر سال کروڑوں یاتریوں کو اس چھوٹے سے قصبے میں کھینچ لاتا ہے۔

وسل بلؤر کا کہنا ہے کہ وہ دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ برداری ہندو ذات پات کے نظام میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ انہوں نے 1995 سے 2014 تک شری منجوناتھ مندر میں کام کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ’جو کام ایک عام ملازمت کے طور پر شروع ہوا وہ بعد میں انتہائی ہولناک جرائم کے شواہد چھپانے کے کام میں تبدیل ہو گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2014 میں وہ اس وقت فرار ہو گئے جب ’مجھے ملنے والا ذہنی عذاب ناقابل برداشت ہو گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب ایک کم عمر لڑکی کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد وہ بھاگ گئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اور ان کا خاندان ایک پڑوسی ریاست میں چھپ گئے اور اپنی جان کے خوف سے رہائش مسلسل بدلتے رہے۔

لرزہ خیز ذاتی بیان میں مذکورہ شخص نے بتایا کہ انہوں نے دریا کے کنارے لاشیں آتی دیکھیں اور پہلے یہی سمجھا کہ شاید یہ خودکشی یا حادثاتی طور پر ڈوبنے کے واقعات ہیں۔ مگر جلد ہی انہوں نے دیکھا کہ ان میں زیادہ تر لاشیں خواتین کی ہیں، جن میں سے کئی برہنہ یا نیم برہنہ تھیں اور ان پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں پہلی بار 1998 میں ’لاشوں کو خفیہ طور پر ٹھکانے لگانے‘ کا کہا گیا۔ جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں مارا پیٹا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ان سے کہا گیا کہ ’ہم تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ تمہاری لاش بھی ان لاشوں کی طرح دفن کر دی جائے گی۔ ہم تمہارے پورے خاندان کو قربان کر دیں گے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جن لاشوں کو انہوں نے خفیہ طور پر دفنایا ان میں سے زیادہ تر وہ کم سن لڑکیاں اور خواتین تھیں جن پر وحشیانہ جنسی تشدد کیا گیا۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ جسم پر تیزاب سے جلائے جانے کے نشانات اور دوسرے زخم تھے۔

 2010 کے ایک انتہائی پریشان کن واقعے میں، مذکورہ شخص نے بتایا کہ انہیں ایک لڑکی کو دفنانے کا حکم دیا گیا جس کی عمر ان کے اندازے کے مطابق 12 سے 15 سال تھی۔

انہوں نے گواہی دیتے ہوئے کہ ’وہ اپنے سکول یونیفارم کی قمیص تو پہنے ہوئے تھی لیکن دیگر کپڑے غائب تھے۔ اس کے پاس سکول کا بستہ تھا۔ اس کے جسم پر جنسی حملے کے واضح نشانات تھے۔ اس کی گردن پر گلا گھونٹنے کے نشانات تھے۔ انہوں نے مجھے گڑھا کھود کر اسے اس کے سکول بیگ سمیت دفن کرنے کو کہا۔ وہ منظر آج بھی پریشان کن ہے۔‘

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دھرم استھالا میں غریب مردوں کو قتل کر کے اسی طرح دفن کیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں کے قتل کے عینی شاہد ہیں۔

وکیل کے مطابق لاشوں کو باقاعدہ قبرستانوں میں دفن نہیں کیا جاتا تھا بلکہ کھلی زمین پر دفنایا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی باقاعدہ تدفین نہیں تھی جس کی اجازت کسی اتھارٹی نے دی ہو، بلکہ یہ بے قاعدہ، پوشیدہ اور غیر قانونی تدفین تھی۔‘

 وسل بلؤر نے بتایا کہ وہ برسوں تک خوف کے باعث خاموش رہے لیکن ’ضمیر پر بے پناہ بوجھ‘ اور بار بار آنے والے ڈراؤنے خواب ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اب قتل کی ان واردتوں کی یادوں کا بوجھ، لاشیں دفنانے کی مسلسل دھمکیاں اور مار پیٹ کا درد برداشت نہیں کر سکتا کہ اگر میں نے وہ لاشیں دفن نہ کیں تو مجھے بھی ان کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا۔‘

دھنن جے نے کہا کہ وسل بلؤر کے دعوے ایک ایسے مقام کی تصویر پیش کرتے ہیں جہاں ’عام قوانین بالکل لاگو نہیں ہوتے۔

’اگر یہ سچ ہے تو ماننا پڑے گا کہ اگر ایسی جگہ کوئی لاپتہ ہو جائے تو پولیس اس کی رپورٹ ہی درج نہیں کرتی۔

’ لیکن صرف اس لیے کہ ہم ماضی کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں، ہمیں حال کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔‘

وکیل نے کہا کہ وسل بلؤر نے پولیس سے مایوس ہو کر خود ہی قدم اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس آنے سے پہلے وہ ایک ایسی ہی قبر پر گئے، باقیات نکالیں اور عدالت کے حوالے کر دیں۔

’اب صورت حال یہ ہے کہ عدالت کے پاس آدھی تصویر ہے۔ باقی آدھا حصہ پولیس پر منحصر ہے کہ وہ اس شخص کو اس جگہ لے جائے جہاں سے باقیات نکالی گئیں۔ مگر پولیس نے یہ بھی نہیں کیا۔

اس شخص کے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں۔ نہ ہی انہیں کوئی تلاش کر رہا تھا۔ کوئی ان لاشوں کو ڈھونڈ بھی نہیں رہا تھا۔

 

پولیس کی عدم کارروائی دنیا کو یہی پیغام دے رہی ہے کہ شاید یہ شخص سچ بول رہا ہے۔‘

اتوار 20 جولائی کو جاری کردہ بیان میں مندر انتظامیہ نے کہا کہ وہ ’منصفانہ اور شفاف‘ تحقیقات کی حمایت کرتی ہے۔

شری کشیتر دھرم استھالا کے ترجمان کے پرشوناتھ جین نے کہا کہ ’سچ اور یقین کسی معاشرے کی اخلاقیات اور اقدار کی بنیاد ہیں۔ ہم پر خلوص امید اور پرزور اپیل کرتے ہیں کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے اور اصل حقائق سامنے لائے۔‘

وسل بلؤر نے ابھی تک ان افراد کے نام نہیں بتائے جنہیں وہ ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے عدالت سے تحفظ فراہم کرنے  کی درخواست کی اور کہا کہ جب انہیں اور ان کے خاندان کو مناسب تحفظ مل جائے گا تو وہ مزید تفصیلات ظاہر کریں گے۔

اگر ان کی طرف سے نام ظاہر کرنے سے پہلے انہیں کچھ ہو جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ دھنن جے ان کی مکمل گواہی پر مشتمل سربمہر تحریر کھول دیں گے۔

انہوں نے اپنی گواہی میں کہا کہ ’ان سانحات کی حقیقت میرے ساتھ مرنی نہیں چاہیے۔‘

کرناٹک سٹیٹ کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن ناگ لکشمی چوہدری نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل ’اہم قدم‘ ہے۔

انہوں نے ان خاندانوں کے کرب کا ذکر کیا، جو اب بھی جواب کے منتظر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک بوڑھی خاتون کو آج بھی اپنی بیٹی کی باقیات ملنے کی امید ہے تاکہ وہ اس کی آخری رسومات ادا کر سکیں۔

’اسی لیے میں نے کرناٹک حکومت کو لکھا اور چار پانچ دن کے اندر انہوں نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم قائم کر دی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین