ازبکستان کی قومی سلامتی کی تنظیم نے ملک کے مشرق میں واقع شہر نمنگان میں داعش گروپ کی خراسان شاخ سے وابستہ ایک خفیہ سیل کی نشاندہی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ازبکستان کی نیشنل سکیورٹی سروس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کی قیادت ایک 19 سالہ لڑکی کر رہی تھی جسے پہلے ترکی کے شہر استنبول میں ایک ’اسلامی مرکز‘ میں مذہبی علوم کی تعلیم دی گئی تھی۔ اس خفیہ داعش خراسان سیل کے ارکان، جو سائبر سپیس میں جہادی پروپیگنڈے میں سرگرم تھے، خاص طور پر ٹیلی گرام پلیٹ فارم پر، بنیادی طور پر نوجوان مرد اور خواتین تھے، اور انہوں نے سوشل نیٹ ورکس پر ایسا مواد شائع کیا جس میں ازبک حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی دی ترغیب اور اکسایا گیا۔
بیان کے مطابق اس تنظیم اور ازبکستان کی وزارت داخلہ کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں اس نیٹ ورک کو ختم کیا گیا جہاں سے جہادی مواد پر مشتمل کتابیں اور پمفلٹس برآمد ہوئے۔
اس گروپ کی قیادت کرنے والی 19 سالہ خاتون کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے تاہم اس کی ایک تصویر جاری کی گئی ہے جس میں اس کا چہرہ دھندلا کیا گیا ہے۔
ازبکستان کی نیشنل سکیورٹی سروس کی جانب سے نوجوان خاتون کے بارے میں ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے 2022 میں ترکی کا سفر کیا اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انتہا پسندانہ رجحانات کے ساتھ ملک واپس آئی۔
خیالات کی اچانک تبدیلی نے نوجوان خاتون کے والد کو پریشان کر دیا لیکن جب اس نے اپنی بیٹی کو اس راستے سے روکنے کی کوشش کی تو اسے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس نے اپنے والد کو کافر کہا‘ اور ان پر دہریت کا الزام لگایا کیونکہ وہ اس کے عقائد کو قبول نہیں کرتے تھے۔‘
ازبک نیشنل سکیورٹی سروس کے مطابق اپنے ملک واپس آنے کے بعد، نوجوان خاتون نے نمنگان شہر میں کم از کم 16 افراد کا ایک خفیہ سیل منظم کیا۔ اس نے ٹیلی گرام میسنجر پر 120 سے زائد چینلز اور ورچوئل گروپس بنائے، جہاں انتہا پسندانہ مواد، داعش کی علامتیں اور جہادی مواد کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو فائلیں شائع کی گئیں۔
بعض ملاقاتوں میں اس گروپ کے ارکان نے انتہا پسندانہ خیالات کو بھی فروغ دیا اور نوجوانوں کو ’جہاد اور شہادت‘ کی دعوت دی۔
تفتیش کے مطابق اس گروپ نے شریعت پر مبنی تعلیمات کی آڑ میں نوجوانوں کو راغب کرنے اور ازبک حکومت کی سیاسی، سماجی اور مذہبی اصلاحات کے خلاف احتجاج کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بیان میں کہا گیا، ’گروپ کا مقصد نوجوانوں کو جہاد کے جذبے سے آگاہ کرنا اور ملک میں سیاسی، سماجی اور مذہبی اصلاحات سے عدم اطمینان کی بنیاد پر تعلیم دینا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی آپریشن کے دوران نمنگان میں گروپ کے 16 افراد کے گھروں کی تلاشی لی گئی اور مختلف اشیا قبضے میں لے لی گئیں جن میں 37 موبائل فون، 51 غیر مطبوعہ مذہبی کتابیں، 40 ڈی وی ڈیز، چار فلیش ڈرائیوز، ایک لیپ ٹاپ اور ایک ٹیبلٹ شامل ہیں۔ سیکورٹی حکام کے مطابق ان اشیا کو مقدمے میں بطور ثبوت استعمال کیا جائے گا۔
نیشنل سیکورٹی سروس کے بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اس گروپ کے ارکان میں سے ایک نمنگان شہر میں ایک نجی یونیورسٹی کا بانی تھا، جو ملک کے بعض تعلیمی اداروں میں نیٹ ورک کے اثر و رسوخ کی نشاندہی کرتا ہے۔
ازبک حکام نے اس گروپ کے سربراہ سمیت اس کے تین فعال ارکان کو حراست میں لے لیا ہے اور ان کے خلاف قانونی مقدمہ شروع کر دیا گیا ہے۔ گروپ کے دیگر ارکان سے تفتیش ابھی جاری ہے۔
اگرچہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ازبکستان نے اپنی سرزمین پر بنیاد پرست اسلامی گروہوں کی سرگرمیوں کا انکشاف کیا ہے، لیکن ایک مذہبی اور قدامت پسند ڈھانچے والے ملک میں، ایک نوجوان خاتون کی داعش کے سیل کی قیادت، وسطی ایشیا میں انتہا پسندی کے خطرے میں نئی جہتوں کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
ازبکستان کی نیشنل سکیورٹی سروس نے ایک اور اعلان میں کہا کہ ایک الگ کارروائی میں اس نے 21 اور 43 سال کی عمر کے دو افراد کو حراست میں لیا ہے، جو خفیہ اور غیر قانونی طور پر بچوں کو مذہبی مواد کی تعلیم دے رہے تھے۔
سیکورٹی ایجنسی کے ایک بیان کے مطابق یہ افراد تاشقند کے ایک مکان میں نابالغوں سمیت 40 سے زائد افراد کو مذہبی مواد سکھا رہے تھے اور انہوں نے اس سرگرمی کو سرکاری اداروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔
اگرچہ ازبک حکومت نے مذہبی مواد خصوصاً جہادی مواد کی تقسیم اور نشریات پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاہم داعش خراسان سمیت انتہا پسند گروپ سوشل میڈیا کا استعمال کر کے ان ممالک کے نوجوانوں کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور وسط ایشیائی ممالک کی مادری اور عام زبانوں میں مواد شائع کر رہے ہیں۔
مارچ 2023 میں داعش نے ’فورسان الترگما‘ کے نام سے ایک نیا میڈیا سینٹر شروع کرنے کا اعلان کیا، جو وسطی ایشیا میں بولی جانے والی زبانوں سمیت 18 زبانوں میں گروپ کے پروپیگنڈا مواد کو شائع کرے گا۔
داعش خراسان میڈیا سینٹر، جو کہ اس کی افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں میں شاخ ہے، پشتو، فارسی، ازبک، چینی، تاجک رسم الخط، اردو، انگریزی، عربی اور کئی دیگر زبانوں میں ’العظیم انسٹی ٹیوٹ‘ کے ذریعے اپنا پروپیگنڈا مواد تیار کرتا ہے۔
ٹیلی گرام پر درجنوں چینلز اس مواد کو دوبارہ شائع کرتے ہیں، اور داعش کے پروپیگنڈا کرنے والے بھی آن لائن کلاسز کے انعقاد کے ذریعے گروپ کے شرکا کو اس مواد کی وضاحت کرتے اور بتاتے ہیں۔