پاکستان، چین اور قطر کے بعد ازبکستان کے طالبان رہنماؤں کے ساتھ سب سے زیادہ اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔
یہ ملک جو کہ دوسرے پڑوسیوں کے ساتھ سخت مقابلے میں ہے وسطی ایشیا میں اپنی معاشی برتری تک پہنچنے کے لیے، افغانستان کو ایک ایسی مارکیٹ کے طور پر دیکھتا ہے جس سے بہت سے معاشی اور سکیورٹی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
2016 میں ازبکستان کے معزول آمر صدر اسلام کریموف کی موت اور اس ملک میں شوکت مرزیویف کے اقتدار میں اضافہ اس ملک کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔
کریموف پڑوسی ممالک کا شاذ و نادر ہی سفر کرتے تھے اور دیگر ممالک کے ساتھ ازبکستان کی تجارت محدود تھی۔ اس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مشکل حالات پیدا کیے تھے اور یہاں تک کہ غیر ملکی سیاح بھی آسانی سے ملک کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔
کریموف کی موت کے بعد جب 2016 میں شوکت مرزیویف اقتدار میں آئے تو انہوں نے ازبکستان کے دروازے ملک کے اندر سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے تاجروں کے لیے کھول دیے۔ مرزیویف نے افغانستان سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ بات چیت اور دوستی بھی کی اور یہاں تک کہ طالبان کو ازبکستان بھی مدعو کیا، جو اس وقت ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں کوئی گرمجوشی نہیں رکھتے تھے۔
ازبک ویزا سستا اور آسان ہو گیا اور جو بھی ازبکستان کا سفر کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ یہ تبدیلی ازبکستان میں اس وقت میں آئی جب افغانستان میں جنگ شدت اختیار کر رہی تھی اور سرمایہ کار اپنا سرمایہ واپس نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سینکڑوں افغان تاجر نہ صرف ازبکستان نقل مکانی کرگئے بلکہ ساتھ سینکڑوں ملین ڈالرز بھی ازبکستان لے آئے۔
طالبان کو سب سے پہلے تاشقند میں 2018 میں ازبک وزیر خارجہ عبدالعزیز کاملوف نے مدعو کیا تھا۔ ازبک حکام کا طالبان کے لیے پرتپاک استقبال گروپ کے رہنماؤں اور ازبک حکام کے درمیان گہرے تعلقات کی تشکیل کا باعث بنا ہے۔
ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کاملوف طالبان کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان سے کیسا تعلق رکھنا ہے انہیں معلوم ہے۔ کاملوف نے 1999 میں ازبکستان کے اس وقت کے صدر کے نمائندے کے طور پر قندھار کا سفر کیا اور ملا محمد عمر سے ملاقات کی تھی۔ افغانستان کی پہلی طالبان حکومت کے دوران، کاملوف کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے قریبی تعلقات تھے، جن میں طالبان کے اس وقت کے وزیر خارجہ مولوی احمد متوکل بھی شامل تھے۔
افغانستان، ازبک صعنت کے لیے موزوں منڈی
افغانستان ازبکستان سے بجلی درآمد کرنے کے علاوہ مزار شریف اور ہراتان کے تجارتی مراکز بھی افغانستان کی سب سے اہم اقتصادی شریانیں ہیں، جو ازبکستان سے ملتی ہیں۔
طالبان کو افغانستان پر قبضہ کیے ہوئے دو ماہ سے بھی کم عرصہ ہوا ہے، لیکن اس دوران ازبک حکام اور طالبان رہنماؤں کے درمیان کئی رابطے اور ملاقاتیں ہوئیں۔ حال ہی میں 4 اکتوبر کو ازبک وزیر ہوا بازی الہم مخکموف نے مزار شریف کا سفر کیا تاکہ طالبان کے وزیر مولوی حمید اللہ اخوندزادہ سے مل کر وزارت ٹرانسپورٹ اور ہوا بازی کے لیے افغانستان کے ساتھ مسلسل تعاون کو یقینی بنایا جا سکے۔ ازبک وزیر ہوا بازی اور طالبان حکام نے کابل اور تاشقند کے درمیان پروازوں کی بحالی، مزار شریف میں مولانا جلال الدین محمد بلخی ایئرپورٹ کی تعمیر نو میں مدد اور دونوں ممالک کے ٹرانسپورٹ اداروں کے درمیان تعلقات کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا۔
جعمرات کو بھی طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ازبکستان کے ہم منصب عبدالعزیز کاملوف کے ساتھ کابل میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
Acting Foreign Minister Amir Khan Muttaqi met with Uzbekistan Foreign Minister Abdulaziz Kamilov on Thursday in Kabul, foreign ministry spokesman Abdul Qahar Balkhi said, adding that they discussed transit, energy and trade.#TOLOnews pic.twitter.com/vXH7De1jeE
— TOLOnews (@TOLOnews) October 7, 2021
امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ملاقات میں ازبکستان سے بجلی کی فراہمی جاری رکھنے کی بات ہوئی ہوگی۔ افغانستان ازبکستان سے 300 میگاواٹ بجلی درآمد کرتا ہے۔
I imagine a prime agenda point for Muttaqi was convincing Uzbekistan not to cut off its electricity supplies to Afghanistan, given Afghanistan’s large unpaid bill.
— Michael Kugelman (@MichaelKugelman) October 7, 2021
اس سے قبل 2 اکتوبر کو افغانستان میں ازبکستان کے سفیر یدیگر شادمانوف نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ شادمانوف نے مولوی امیر خان متقی کو یقین دلایا کہ ازبک حکومت افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے اور استوار کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
پاکستان اور ازبکستان ان پہلے ممالک میں شامل تھے جنہوں نے سابقہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کو امدادی کھیپ بھیج کر طالبان کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا۔ 12 ستمبر کو ازبکستان نے 1300 ٹن خوراک کی کھیپ مزار شریف بھیجی، ازبک صدر کے خصوصی ایلچی عصمت اللہ یرگشیف کے ساتھ بلخ میں طالبان کے گورنر قدرت اللہ حمزہ کو امداد دی۔ یارگشیف نے افغانستان میں نئی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
ازبک گورنر توردا بابایف نے 13 ستمبر کو مزار شریف کا دورہ کیا اور بلخ میں طالبان کے گورنر مولوی قدرت اللہ حمزہ سے ملاقات کی۔ بابایف نے بلخ میں مقامی طالبان عہدیداروں کو کئی تحائف سونپے اور طالبان کے ساتھ مشترکہ کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ سرکھندریہ کے گورنر کے مطابق کمیشن بلخ میں مقامی طالبان عہدیداروں اور صوبائی حکام کے درمیان تجارت، سکیورٹی اور ثقافتی تعلقات کے شعبوں میں تعاون کو آسان بنائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ازبکستان کو اب وسطی ایشیا کی معاشی طاقتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو کہ عالمی بینک کے مطابق 2021 میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے روس سے آگے ہے۔ شوکت مرزیویف نے، جنہوں نے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے ازبکستان کے دروازے کھولے، سیاست پر معیشت کو ترجیح دی۔ اس وجہ سے ملک کے عہدیدار، طالبان کابینہ کی تشکیل پر کوئی تبصرہ کیے بغیر افغانستان کے ساتھ تعلقات اور تجارت سے فائدہ اٹھانے والے ممالک میں سے ایک کے طور پر تیزی دکھا رہے ہیں۔
ازبکستان جیسے ملک کے لیے، جس کی حکومت انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور نسلی حقوق جیسے مسائل کی پرواہ نہیں کرتی، افغانستان معاشی اور سکیورٹی مفادات کے لیے خطے میں ایک اچھی منڈی ہے۔
ازبکستان کے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے معاشی اہداف کے علاوہ ایک اور مقصد جو اس نے حاصل کیا ہے وہ افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر ازبک شدت پسندی کے خطرے کو ٹالنا ہے۔ اسلامی تحریک ازبکستان جو کہ داعش اور القاعدہ کی اتحادی بھی ہے، طالبان کی سرپرستی میں گذشتہ 20 سالوں سے حملوں میں ملوث ہے۔
جب سے افغانستان میں طالبان آئے ہیں، تحریک اسلامی ازبکستان کے ارکان، جو بنیادی طور پر تخار، قندوز اور بدخشان صوبوں میں مقیم ہیں، اطلاعات ہیں کہ منتشر ہو چکے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس گروہ کے جنگجوؤں نے شمالی اور مشرقی افغانستان کے کئی شہروں کا سفر کرتے ہوئے داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ازبکستان نے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر کے اب تک ازبک شدت پسندوں کی طرف سے لاحق خطرے کو کم کرنے کے اپنے کم از کم ایک بڑے اہداف کو حاصل کر لیا ہے۔
طالبان، جنہیں بین الاقوامی قبولیت کی ضرورت ہے اور تسلیم کیے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، ازبکستان کو ایک قابل اعتماد دوست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اب تک پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے طالبان کو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کے بارے میں دنیا کی تشویش کی ایک اور بڑی وجہ اس کا بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننا بھی ہے۔