پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے معاملے پر مستقل بنیادوں پر رابطے میں رہنا ہوگا۔
یہ بات افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی آن لائن انٹرویو کے دوران کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے پر طالبان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کابل میں تبدیلی کے بعد سے حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پوچھا کہ پاکستان کتنا مطمئن ہے کہ یہ حملے اب سرحد پار افغانستان سے نہیں ہو رہے تو ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے گذشتہ چند برسوں میں دوطرفہ میکنزم بنائے تھے جس میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی سطح پر تعاون شامل تھے۔ ’لہذا افغانستان کو انسداد دہشت گردی کے بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ بننا پڑے گا۔‘
تاہم انہوں نے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ افغان طالبان کی مدد سے بعض پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات افغانستان میں ہو رہے ہیں۔
امریکی وزارت دفاع کی سال 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے تین سے چار ہزار جنگجو افغانستان میں موجود تھے۔
افغانستان ہمیشہ پاکستان سفارت کاروں کے لیے ایک مشکل پوسٹنگ رہی ہے لیکن جون 2020 کے بعد سے جس تیزی سے کابل میں تبدیلیاں آتی رہیں ان میں ان کی مصروفیات کافی بڑھ گئی ہیں۔
طالبان حکومت کب تک تسلیم ہوگی؟
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہ پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے کتنا قریب ہے، ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد یہ فیصلہ علاقے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کرے گا لیکن کابل میں جو بھی حکمران ہو پاکستان ان کے ساتھ انگیج کرتا ہے۔ ’طالبان اقتدار میں آنے کے بعد اپنا کنٹرول استوار کرنے اور دنیا کے ساتھ انگیج کرنے کے مراحل میں ہیں۔ حکومت تسلیم کرنے کا ایک پراسس ہے دنیا بشمول پاکستان ان کے ساتھ انگیج کر رہی ہے۔‘
انچاس سالہ تجربہ کار سفارت کار منصور احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان اکثر اہم شعبوں میں افغانستان کی مدد کر رہا ہے تاکہ افغان عوام کی مشکلات نہ بڑھیں۔ ’افغانستان کے اثاثے منجمد ہونے سے عوام کے لیے شدید مشکلات پیدا ہور رہی ہیں تو ہم دنیا اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ بھی انگیج کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور اس کی حکومت کو تسلیم کرنے کا انحصار اس کے فیصلوں اور ان کی روشنی میں عالمی پالیسی پر ہے۔ ’ایک رجحان یہ دکھائی دے رہا ہے کہ افغانستان کی تنہائی نہ دنیا، نہ خطے اور نہ افغانستان کے حق میں ہوگی۔ اس لیے انگیجمنٹ دونوں طرف سے ہے لیکن اختلافات بھی ہیں۔‘
انہوں نے دو ایسے بڑے مسائل گنوائے جن پر اختلاف موجود ہے۔ ایک وسیع البنیاد حکومت اور دوسرا خواتین کے حقوق۔ ’ہم ان رابطوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ افغانستان کا اندرونی مسئلہ بھی ہے۔ ہماری طرف سے ان پر کوئی پوزیشن لینا کہ یہاں پر کس قسم کا سیاسی نظام ہونا چاہیے اور لوگوں کے کیا حقوق ہونے چاہییں وہ ایک طرح کی دخل اندازی بھی ہوگی۔‘
خواتین کے حقوق اور وسیع البنیاد حکومت کے مطالبات پر طالبان نے اب تک کوئی خاص لچک نہیں دکھائی ہے تو کیا اس تاخیر سے طالبان کے لیے مسائل بڑھیں گے نہیں؟ اس کے جواب میں پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کا آئندہ چند روز میں ایک ماہ مکمل ہوگا اور ابھی وہ بڑے سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔ ’انخلا کے نتیجے میں افعان چلے گئے تو انہیں اپنی وزارتیں اور دفاتر فعال بنانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ وہ تمام اشوز پر بات کر رہے ہیں۔‘
منصور احمد خان نے کہا کہ حکومت تسلیم ہونے کے بارے میں وہ کسی نظام الاوقات کی پیش گوئی نہیں کرسکتے لیکن اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ ’دونوں کے نقطہ نظر میں کافی فرق ہے۔ اسے دور مذاکرات سے ہی کیا جاسکتا جس میں وقت لگ سکتا ہے۔‘
منصور احمد خان بھی گذشتہ جمعرات کو ان درجن بھر سفرا اور امدادی تنظیموں کے اہلکاروں کے ہمراہ تھے جن کے ساتھ پہلا موقع ہے کہ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ملاقات کی۔
اس موقع پر طالبان رہنماؤں عبدالغنی برادر اور امیر خان متقی نے ایک بار پھر دیگر ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کابل میں اپنے سفارت خانے اور مشن دوبارہ کھولیں۔ پاکستان، ترکی، چین اور روس سمیت متعدد ممالک نے کابل میں سفارت خانے کھلے رکھے ہیں، لیکن ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی بابت کہتا ہے کہ وہ اس بارے میں علاقائی مشترکہ فیصلے کا حصہ ہوگا۔ لیکن ہر ملک کی اپنی انفرادی شرائط بھی ہوں گی تو پاکستان کی اپنی مخصوص شرائط کیا ہیں؟ اس بارے میں منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ ستر کی دھائی سے 26 سو کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد عدم استحکام کا شکار رہی ہے۔
’گذشتہ 15-20 سالوں میں یہاں دہشت گرد گروپوں کا اجتماع ہوا ہے جن میں پاکستان میں قائم ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر ہمسایے جیسے کہ چین ای ٹی آئی ایم کی بات کرتا ہے، ازبکستان مشرقی ازبکستان اسلامک موومنٹ کی بات کرتے ہیں، پھر داعش بھی ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحدی سکیورٹی بہت اہم ہوگی۔ اس پر ہماری ان کے اداروں سے جوں جوں وہ بحال ہو رہے ہیں بات چیت چل رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا اہم مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کی نقل و حرکت کا ہے۔ منصور احمد خان نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق روزانہ 40 سے 50 ہزار افراد اپنی سماجی، اقتصادی، طبی اور تعلیمی ضروریات کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔ ’اس نقل و حرکت کو مکمل طور پر دستاویزات کی بنیاد پر بنانے کے لیے ایک نظام ہونا چاہیے۔ اس میں کچھ مشکلات بھی ہیں لیکن ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔‘
پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ یا مطالبہ اقتصادی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیا تک رسائی بڑھانے کی بات بھی ہو۔ ’سی پیک میں سرمایہ کاری اور فوائد دیگر خطے کے ممالک تک بڑھانا بھی ضروری ہے۔‘
افغان فوج کی تربیت کی پیشکش پر کیا جواب ملا؟
منصور احمد خان نے بتایا کہ پاکستان افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت یا صلاحیت بڑھانے کی پیشکش سابق صدر حامد کرزئی کو بھی کر چکا تھا لیکن انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانے سے انکار کیا تھا۔
ان کے مطابق اس پیشکش کے سلسلے میں پاکستان پچھلی افغان حکومت کے ساتھ بھی بات چیت میں مصروف تھے۔ ’دس مئی کو جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسی سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں یہ پیشکش بڑی شدومد کے ساتھ کی گئی تھی۔ لیکن چونکہ حالات ایسے تھے کہ اس کا جواب نہیں ملا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’افغانستان میں سکیورٹی فورسز کی تیاری کا معاملہ ابھی بہت پیش رفت کا متقاضی ہے۔ کیا وہ سابق فوجیوں کو واپس بلاتے ہیں، فوج اور پولیس کا ڈھانچہ کیسا بناتے ہیں۔ اپنی انسداد دہشت گردی فورسز کی تنظیم نو کس طرح کرتے ہیں۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد جب اگر پاکستان کوئی مدد فراہم کرسکا تو ضرور کرے گا۔ ہماری یہ پیش کش موجود ہے۔‘
افغان کرنسی کی پرنٹگ کی پیشکش؟
افغان حکومت کے اثاثے اور ڈالر اکاؤنٹ منجمد ہیں، ایسے میں پاکستان نے کرنسی کی پرنٹنگ کی بھی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کے سفیر کا کہنا تھا کہ تمام لین دین افغان کرنسی میں ہو رہی ہے۔ یہ کرنسی بھی باہر سے پرنٹ ہوتی تھی تو اس پر ابھی کوئی فیصلہ انہوں نے نہیں لیا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان پناہ گزینوں کے سیلاب کا خدشہ تھا لیکن پاکستان نے سرحدیں سیل کر کے اسے وقتی طور پر روک دیا۔ پوچھا کیا یہ خطرہ اب بھی موجود ہے تو ان کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک سکیورٹی جو بخوبی قدرے پرامن طریقے سے انتقال اقدار سے پیدا ہوئی لیکن دوسری وجہ اقتصادی ہوتی ہے۔ ’یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ اقتصادی صورت حال شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہاں انسانی امداد پر توجہ نہ دی گئی، اقتصادی انگیجمنٹ پر توجہ نہ دی گئی تو کئی بین الاقوامی اداروں کو تشویش ہے کہ معاشی پریشانیوں سے دل برداشتہ ہو کر ہمسایہ ممالک کا رخ کریں۔ پاکستان کے لیے یہ ممکن ہے کہ کسی بھی وقت ان حالات کی وجہ سے یہ صورت پیدا ہوسکے۔‘
افغانستان میں پاکستان کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ماضی کی افغان حکومتوں میں مختلف عناصر نے پاکستان مخالف سرمایہ کاری کی لیکن 15 اگست کے بعد سے اس میں کمی آئی ہے۔