لاہورجب انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گیا؟

سکھ پہلے تو یہ چاہتے تھے کہ انہیں خالصتان دیا جائے جب انہیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی تو پھر ان کی شدید خواہش تھی کہ پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں انہیں زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن 1947 میں جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح سے انڈیا کی تقسیم پر مذاکرات کر رہے ہیں (وکی کامنز)

لاہورکو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ شہر تقسیم کے وقت سکھوں کو دیا جا رہا تھا؟

لیکن پھر باؤنڈری کمیشن کے سربراہ سرریڈ کلف نے اسے اچانک پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا۔

انگریزوں نے پنجاب سکھوں سے چھینا تھا اس لیے سکھ چاہتے تھے کہ لاہور ہر صورت انہیں دیا جائے کیونکہ یہاں ان کے مقدس اور تاریخی مقامات بھی ہیں اور شہر کے اندر معاشی اور سماجی منظر نامے پر ان کی اجارہ داری ہے لیکن جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح نےلارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہا تھا کہ وہ پاکستان کیسا ہو گا جس میں لکھنو شامل نہ ہو اسی طرح سکھوں کا سارا زور لاہور کو انڈیا میں شامل کرانے پر تھا۔

سکھ پہلے تو یہ چاہتے تھے کہ انہیں خالصتان دیا جائے جب انہیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی تو پھر ان کی شدید خواہش تھی کہ پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں انہیں زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے۔ آخری لمحوں میں انہوں نے گرداس پور تو لے لیا مگر لاہور نہیں لے سکے۔

 تقسیم کے وقت لاہور میں اکثریت کس کی تھی؟

1941 کی مردم شماری کے مطابق لاہور ضلع کی آبادی 671,659  افراد پر مشتمل تھی جن میں مسلمانوں کا تناسب 60.62 فیصد جبکہ ہندوؤں اور سکھوں کا 39.38 فیصد تھا۔ آبادی کے برعکس ہندو اورسکھ شہر کی 80 فیصد املاک کے مالک تھے جن میں تاریخی عمارات، کاروبار، ہسپتال جن میں سر گنگا رام ہسپتال، گلاب دیوی ہسپتال، جنکی دیوی ہسپتال، دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ لائبریری جیسے ادارے بھی شامل تھے۔ سکھ اسے اپنا تجارتی اور سیاسی مرکز گردانتے تھے کیونکہ یہاں سے ہی انہوں نے کم و بیش نصف صدی تک پنجاب پر حکمرانی کی تھی اور کوہ نور جیسے ہیرے کے بھی وہ مالک تھے۔

1913 کے بعد لاہور میں جو نئی آبادیاں وجود میں آئیں وہ بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنی تھیں جن میں ہندوؤں اور سکھوں کی اکثریت تھی جن میں رام گلی، گوالمنڈی، نسبت روڈ کے علاقے رشی نگر، سنت نگر، کرشن نگر، جانک نگر، قلعہ لچھمن سنگھ ، قصور پورہ، محمد نگر، نیو مزنگ، اسلامیہ پارک، چوبرجی گارڈن، آریہ نگر، مسلم ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، کینال پارک، وسن پورہ، مصری شاہ، انڈیانگر، سنگھ پورہ اور رام گڑھ شامل تھیں۔

پنجاب حکومت کے محکمہ مال کے1944 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق لاہور کی میونسپل کارپوریشن کی حدود میں واقع غیر مسلموں کے مکانات کی مالیت 12,27,64,800 روپے بنتی ہے جبکہ مسلمانوں کی ملکیتی جائدادوں کی مالیت8,20,99,200 روپے بنتی ہے۔

لاہور شہر میں 63 فیصد دُکانیں غیر مسلموں کی ملکیت تھیں جبکہ لاہور کے نواحی علاقے بھی اگر شامل کر لیے جائیں تو کل 5,332 دکانوں میں سے 3,501 غیر مسلموں کی ملکیت تھیں۔

لاہور شہر میں کل 218 رجسٹرڈ فیکٹریاں تھیں جن میں سے 173 یعنی 80 فیصد غیر مسلموں کی ملکیت تھیں۔ ان فیکٹریوں میں کی گئی کل سرمایہ کاری 2,40,27000 روپے تھی جن میں سے مسلمانوں کا حصہ صرف 58,91000 روپے تھا۔

لاہور میں کل 90 بنک کام کرتے تھے جن میں مسلمانوں کے ملکیتی بنک صرف تین تھے۔ لاہور کی 80 انشورنس کمپنیوں میں سے صرف دو مسلمانوں کی تھیں یہی حال تعلیم کا تھا لاہور کے 12 کالجوں میں سے ایک کالج حکومت اور ایک مسلمانوں کے زیر انتظام تھا باقی 10 کالج غیر مسلم چلاتے تھے۔ لاہور کے 12 ایلوپیتھک اور 4 حکیمی ہسپتالوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کا نہیں تھا۔

ریڈ کلف نے لاہور کا فیصلہ آخری لمحوں میں کیا

 مشہور بھارتی صحافی کلدیپ نائیر نے اپنی کتاب Scoop: Inside Stories from Partition to the Present میں لکھتے ہیں کہ جب وہ 1971 میں لندن گئے تاکہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے مل کر یہ جان سکیں کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدیں کس طرح کھینچی گئی تھیں اور آخری لمحوں میں ان میں رد و بدل کیوں کیا گیا تھا؟ اس دوران وہ ریڈ کلف سے بھی جا کر ملے جنہوں نے ان کے سامنے اعتراف کیا کہ ’میں لاہور سکھوں کو دینے ہی والا تھا کہ پھر میں نے سوچا کہ پاکستان کے پاس کوئی بڑا شہر نہیں ہے کیونکہ میں کلکتہ پہلے ہی انڈیا کو دے چکا تھا۔‘

ریڈ کلف آٹھ جولائی کو انڈیا آئے تھے اور صرف ایک ماہ میں وہ یہ کام کر کے چلتے بنے ان کے ساتھ باؤنڈری کمیشن کے دیگر چار ممبران بھی تھے جن میں مہرچند مہاجن اور تیجا سنگھ جنہیں کانگریس نے نامزد کیا تھا جبکہ دین محمد اور محمد منیر کو مسلم لیگ نے نامزد کیا تھا یہ سب حاضر سروس جج تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ باقی اضلاع کا فیصلہ تو آبادی کی بنیاد پر کیا گیا مگر گرداس پور کے معاملے میں یہ فارمولا لاگو نہیں کیا گیا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انڈیا کے حق میں مداخلت کی تھی تاکہ گرداس پور کے ذریعے انڈیاکی جموں و کشمیر تک رسائی ممکن ہو سکے جس کے لیے اہم ترین کردار لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا بتایا جاتا ہے جنہیں نہرو سے خاصی قربت تھی۔

لاہور انڈیاکو کیوں نہیں دیا گیا؟

باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے پہلے کسی کو نہیں معلوم تھا کہ لاہور کدھر جا رہا ہے۔

مسلم لیگ نے لاہور کو پاکستان کا دل قرار دے دیا تھا جبکہ ماسٹر تارا سنگھ نے کہا تھا کہ لاہور کے بغیر سکھ قوم کے دل کو ٹھیس پہنچے گی۔ باؤنڈری کمیشن کا بنیادی اصول آبادی کے تناسب سے فیصلہ کرنا تھا نہ کہ اس بنیاد پر کہ تجارت اور کاروبار کس کے ہاتھ میں ہے۔ اس حوالے سے مسلمانوں کا کیس کافی مضبوط تھا اس لیے لاہور پاکستان کو ملنا قرار پایا تھا۔

لاہور اگر انڈیا کو دیا جاتا تو سرحدیں مزید پیچیدہ ہو جاتیں کیونکہ لاہور کے ارد گرد سارے علاقے مسلم اکثریتی تھے۔ کانگریس اور اکالی دل کی جانب سے لاہور پر جو دعوے کیے جا رہے تھے وہ آبادی کے اعدادوشمار اور سرحدی جغرافیے کے حوالے سے کافی کمزور تھے۔

کانگریس کے وکیل سیٹل واد اور سکھ وکیل ہرنام سنگھ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب کے باؤنڈری کمیشن کی شرائط میں دیگر عوامل کو بھی مد نظر رکھا جائے جن میں ہندوؤں اور سکھوں کی معاشی سرمایہ کاری، کاروبار، صنعتوں اور زمینوں کی ملکیت، محصولات کی ادائیگی، تعلیمی اور مذہبی اداروں کی وابستگی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے اسی پس منظر میں انہوں نے لاہور کے ساتھ ساتھ شیخو پورہ، منٹگمری اور لائل پور کے اضلاع پر بھی اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔

ان چاروں اضلاع کے ریونیو میں مسلمانوں کا حصہ سکھوں اور ہندوؤں کے مقابلے میں خاصا کم تھا۔ ریڈ کلف نے کانگریس اور سکھ وکلا کے دلائل مسترد کر دیے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں سر ظفراللہ خان کے دلائل کو تسلیم کر لیا تھا جن میں فیصلہ آبادی کے تناسب کی بنیاد پر کیا جانا قرار پایا تھا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ