انڈیا کے سکھ یاتریوں کی پاکستان آنے پر پابندی کیوں؟

پاکستان کے سکیورٹی ذرائع نے دو روز پہلے بتایا کہ انڈیا نے سات مئی 2025 سے سکھوں کی پاکستان میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

سکھوں کے مذہبی تہوار بیساکھی میلے کی تقریبات 10 اپریل سے حسن ابدال میں گردوارہ پنجہ صاحب میں منعقد ہوئیں (ندیم حیدر)

انڈیا پاکستان میں ہونے والی حالیہ کشیدگی کے باعث سرحد کے دونوں اطراف رہنے والی سکھ برادری متاثر ہو رہی ہے کیونکہ ان کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات اور پابندیوں کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے پاکستانی سکھ برادری کے رہنما سردار ستونت سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انڈیا کی جانب سے سات مئی کو انڈین شہریوں کے پاکستان سفر پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ لہذا جو سکھ یاتری انڈیا سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کی تقریبات میں شرکت کے لیے آنا چاہتے ہیں انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حتیٰ کہ انڈیا نے کرتارپور اور واہگہ بارڈر بھی یاتریوں کے لیے بند کر رکھے ہیں۔‘

دوسری جانب متروکہ وقف املاک بورڈ کے ترجمان غلام مصطفیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہر سال مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی منانے کے لیے دنیا بھر کی طرح انڈیا خاص طور پر انڈین پنجاب سے سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی 30 جون کو منائی جاتی ہے جس میں تین ہزار سے زائد یاتری لاہور اور کرتار پور پہنچتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سکھ یاتریوں کو پاکستان میں مذہبی تہوار منانے سے روکنا انڈیا کی سکھوں کے خلاف نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق انڈیا سکھوں پر ایسی سفری پابندی نہیں لگا سکتا۔‘

سکھ یاتریوں پر سفری پابندی کیوں؟

پاکستان کے سکیورٹی ذرائع نے دو روز پہلے بتایا کہ انڈیا نے سات مئی 2025 سے سکھوں کی پاکستان میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

انڈیا سے مذہبی تہوار منانے کے خواہش مند سکھوں کو کرتار پور اور واہگہ بارڈر سے بھی پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

سابق صدر سکھ گردوارا پربندھک کمیٹی سردار جسونت سنگھ کے بقول، ’جب بھی انڈیا پاکستان کے درمیان کشیدگی ہوتی ہے سب سے زیادہ متاثر دونوں طرف بسنے والی سکھ برادری ہوتی ہے۔

’انڈین پنجاب میں رہنے والے سکھ یہاں مزارات کی زیارت اور مذہبی تہوار منانے آتے ہیں ان کے لیے مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں۔ جو یہاں پاکستان میں سکھ آباد ہیں وہ اپنے عزیز رشتہ داروں سے انڈیا جاتے ہیں۔ لیکن کشیدگی میں بارڈر بند ہونے سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔‘

جسونت سنگھ کے بقول، ’پاکستان کی طرف سے کبھی ہمیں اس طرح کی دشواری پیش نہیں آئی وہاں سے آنے والوں کو بھی یہاں بہترین طریقے سے سنبھالا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا کی جانب سے ہر بار سکھوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ انڈیا پابندی لگا کر سکھوں کے مذہبی آزادیاں سلب کر رہا ہے۔ سکھوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہوئے کرتارپور راہداری اور واہگہ بارڈر کو  بھی بند کر رکھا ہے۔‘

غلام مصطفیٰ کے مطابق ’پاکستان نے بیساکھی میلے میں بھی سکھوں کی آمد پر انہیں خوش آمدید کہا اور ان کے لیے بہترین انتظامات کیے گئے۔ اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی جو 30 جون کو ہونا ہے اس حوالے سے بھی کرتار پور سمیت تمام مقامات پر انتطامات جاری ہیں۔ ہماری طرف سے سکھ برادری کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ لیکن اس بار ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی کہ انڈیا سکھ یاتریوں کو آنے کی اجازت دے گا یا نہیں۔ تاہم ہم ہر طرح تیار ہیں انہیں پاکستان کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘

جنرل ریٹائرڈ نعیم کالد لودھی کے بقول، ’حالیہ جارحیت کے دوران انڈیا نے سکھوں کے علاقوں پر حملہ کیا اور ان کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ امرتسر میں بھی میزائل داغے تاکہ سکھوں کو پاکستان کے خلاف بڑھکایا جا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ انڈیا نے پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقام ننکانہ صاحب پر بھی ڈرونز سے حملہ کر کے الزام پاکستان پر دھرنے کی کوشش کی۔ انڈیا سکھ مخالف احساسات اور جذبات کے ساتھ پچھلی کئی دہائیوں سے کھیل رہا ہے۔

بقول نعیم خالد، ’مودی کی متعصبانہ سوچ نے مسلمانوں کےساتھ ساتھ انڈیا کی سرزمین سکھوں کے لیے بھی تنگ کر دی ہے۔ 1950کے معاہدے کے مطابق سکھ یاتریوں کو چار اہم مذہبی موقعوں پر پاکستان میں مزارات پر جانے کی اجازت ہے۔ان مذہبی مواقعوں میں گرو ارجن دیو  کی برسی، گرو نانک کا یوم پیدائش، خالصہ پنتھ کا یوم تاسیس (بیساکھی) اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی شامل ہیں، پاکستان کے ساتھ سکھوں کی قربت اور انڈیا کے خلاف لڑنے کا بیان مودی سرکار کے لیے دردِ سر بن چکا ہے۔‘

جسونت سنگھ کے مطابق ’عالمی قوانین کے مطابق کوئی بھی ملک کسی مذہب کے لوگوں کو ان کے مذہبی مقامات کی زیارت سے نہیں روک سکتا۔ لیکن مودی کی جانب سے اس طرح کے اقدامات سکھ برادری کی حق تلفی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انڈیا ہمارے سکھ بھائیوں کو پاکستان آنے کی فوری اجازت دے۔ ہم اپنے گرو ناننک کی تعلیمات کے مطابق پر امن ہیں اور بھائی چارے سے رہنے کے خواہاں ہیں۔‘

متروکہ وقف املاک بورڈ ریکارڈ کے مطابق مہاراجا رنجیت سنگھ گوجرانوالہ کے قریب 13 نومبر 1780 میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات جون 1839 میں ہوئی۔ وہ پنجاب میں پنجابی سلطنت کے بانی مانے جاتے ہیں۔

تقریباً 40 سالہ دورِ حکومت میں اُن کی فتوحات کے سبب پنجاب کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک پھیلا ہوا تھا۔ اب سکھ برادری ان کی برسی 30جون کو مناتی ہے۔

انڈیا سے پاکستان سفر پر پابندی کے حوالے سے انڈین پنجاب میں سکھ یاتریوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے ٹیلی فون پر موقف دینے سے معذرت کر لی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا