چین نے پاکستان کو ہمارے اہم ٹھکانوں کی ’لمحہ بہ لمحہ معلومات‘ دیں: انڈین ملٹری ڈپٹی چیف

انڈین فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے کہا کہ چین نے مئی میں انڈیا پاکستان جنگ کے دوران اسلام آباد کو نئی دہلی کے اہم ٹھکانوں کے بارے میں ’لائیو اِن پُٹس‘ فراہم کیں۔

انڈین ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہل آر سنگھ چار جولائی 2025 کو فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایگزیبیشن آن نیو ایج ملٹری ٹیکنالوجیز سے خطاب کر رہے ہیں (ایف آئی سی سی آئی ایکس اکاؤنٹ)

انڈین فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے جمعے کو کہا ہے کہ چین نے گذشتہ ماہ مئی میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران اسلام آباد کو انڈیا کے اہم ٹھکانوں کے بارے میں ’لائیو اِن پُٹس‘ (لمحہ بہ لمحہ معلومات) فراہم کیں۔

انہوں نے ملک کے فضائی دفاعی نظام کو فوری طور پر بہتر بنانے پر زور دیا۔

ایٹمی طاقت کے حامل ان دو حریفوں نے رواں برس مئی میں چار روزہ لڑائی کے دوران میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے کا استعمال کیا۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں میں سب سے شدید جھڑپ تھی، جس کا آغاز رواں برس اپریل میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہندو سیاحوں پر حملے سے ہوا۔

اس حملے کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر عائد کیا، تاہم پاکستان اس میں ملوث ہونے کی تردید کرتا آیا ہے۔ بعد ازاں دونوں ملک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی پر متفق ہو گئے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے نئی دہلی میں دفاعی صنعت کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ اس جھڑپ کے دوران انڈیا کو دو دشمنوں کا سامنا تھا، جن میں پاکستان ’سامنے‘ تھا، جب کہ چین نے اسے ’ہر ممکن مدد‘ فراہم کی۔

انہوں نے کہا کہ ’جب ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز) سطح کی بات چیت ہو رہی تھی تو پاکستان نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کا فلاں اہم شعبہ تیار ہے اور ایکشن کے لیے تیار کھڑا ہے۔ اسے چین سے براہ راست معلومات مل رہی تھیں۔‘

راہل سنگھ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ پاکستان کو چین سے لائیو ملنے والی معلومات کے بارے میں انڈیا کو کیسے علم ہوا؟

چین کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے روئٹرز کی جانب سے تبصرے کے لیے بھیجی گئی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ سے انڈین فوج کے ڈپٹی چیف کے اس بیان پر ردعمل جاننے کی غرض سے رابطہ کیا، لیکن فوری طور پر کوئی جواب موصول نہ ہو سکا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے 22 جون 2025 کو عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان انڈیا جنگ کے دوران مبینہ چینی معاونت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’یہ پاکستان کی جنگ تھی اور یہ جیت میڈ اِن پاکستان تھی۔‘

انڈیا اور چین کے تعلقات 2020 کی سرحدی جھڑپ کے بعد کشیدہ ہو گئے تھے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان چار سال تک فوجی کشیدگی جاری رہی، تاہم گذشتہ برس اکتوبر میں پیچھے ہٹنے کے معاہدے کے بعد حالات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔

انڈیا نے پہلے کہا کہ اگرچہ پاکستان چین کا قریبی اتحادی ہے، لیکن اس جھڑپ کے دوران بیجنگ کی جانب سے موقعے پر مدد کے کوئی آثار نہیں ملے۔

اس بارے میں کہ چین نے سیٹلائٹ تصاویر یا کوئی اور خفیہ معلومات لائیو فراہم کی یا نہیں، انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف نے کہا تھا کہ ایسی تصاویر تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہیں اور انہیں چین یا کسی اور جگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی حکام اس جنگ میں چین سے فعال مدد حاصل کرنے کے الزامات پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں، لیکن اس بات پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا گیا کہ آیا لڑائی کے دوران بیجنگ نے کوئی سیٹلائٹ یا ریڈار مدد فراہم کی تھی۔

بیجنگ نے مئی میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کیا اور 2013 سے پاکستان کی مشکلات کی شکار معیشت میں سرمایہ کاری اور مالی معاونت فراہم کی۔

چینی وزیر خارجہ نے جنگ بندی کے کچھ روز بعد پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں پاکستان کو اپنی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے حمایت کا یقین بھی دلایا۔

لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ کا کہنا تھا کہ ترکی نے بھی لڑائی کے دوران پاکستان کو اہم مدد فراہم کی اور اسے بیرقدار سمیت ’دیگر کئی‘ ڈرونز کے ساتھ ساتھ ’تربیت یافتہ افراد‘ کی شکل میں مدد فراہم کی۔ 

انقرہ کے اسلام آباد سے قریبی تعلقات ہیں اور اس نے جھڑپ کے دوران پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا، جس کے بعد انڈین شہریوں نے ترک کافی سے لے کر وہاں چھٹیاں گزارنے تک ہر چیز کا بائیکاٹ کیا۔

ترکی کی وزارت دفاع نے روئٹرز کی جانب سے تبصرے کے لیے بھیجی گئی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا