پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ جغرافیائی تزویراتی سطح پر خطے میں ’عدم استحکام‘ کا باعث بن رہا ہے۔
سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور سفارتی حل کو ترجیح دی ہے اور بارہا انڈیا کو تمام متنازع امور پر تعاون کی مکمل پیشکش کی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان انڈیا کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی چاہتا ہے، جو باہمی احترام، خودمختاری اور برابری کی بنیاد پر ہو۔‘
جنرل ساحر شمشاد مرزا نے یہ بھی کہا کہ ’یہ مفروضہ کہ پاکستان اپنی خودمختاری یا علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی پر ردِعمل نہیں دے گا، بنیادی سٹریٹیجک سمجھ بوجھ سے عاری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایٹمی جنوبی ایشیا ایسی سٹریٹیجک غلط فہمی کے خطرات پیدا کرتا ہے جو عالمی سطح پر نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔‘
’جنوبی ایشیا کا ایٹمی بن جانا ایک فیصلہ کن موڑ تھا، جس کے بعد تیسرے فریق کی ثالثی بحران سے نمٹنے کے عمل کا مستقل حصہ بن گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مغرب کی جانب سے انڈیا کو ایک ’سکیورٹی فراہم کرنے والے ملک‘ کے طور پر پیش کرنا اور اس کی خطے میں بالادستی کی خواہش اسے تنازع کے حل کے کسی بھی آپشن سے دور کر رہی ہے۔‘
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کا کہنا ہے کہ ’جنوبی ایشیا میں تنازعات اس لیے بھی حل نہیں ہو پاتے کیوں کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر موجود کثیرجہتی ڈھانچے نہ صرف کمزور ہو چکے ہیں بلکہ مؤثر بھی نہیں رہے۔
’میں اختصار سے یہ کہنا چاہوں گا کہ حالیہ انڈیا، پاکستان کشیدگی نے ایک بار پھر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ خطے کے بحران سے نمٹنے کے نظام بعض ممالک کے جنگجویانہ رویے کے سامنے بے بس ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بحران کے انتظام کے سلسلے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جو واحد فعال دوطرفہ رابطہ ہے، وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کی ہاٹ لائن ہے۔
’حالیہ تناؤ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جیسے ہی کوئی بحران جنم لے، اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رابطے کے کھلے ذرائع کس قدر ضروری ہیں۔‘
اس تناظر میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے چار نکات پیش کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلگام کے بعد جنگی کشیدگی کی حد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، جس سے صرف متنازع علاقے ہی نہیں بلکہ پورا انڈیا اور پورا پاکستان متاثر ہو سکتے ہیں۔
’یہ صورت حال دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب عوام کی سرمایہ کاری، تجارت اور ترقیاتی ضروریات کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔‘
پاکستانی جنرل کا کہنا تھا کہ ’مستقبل میں انڈیا کی پالیسیوں، سیاست اور انتہا پسند ذہنیت کے پیشِ نظر اگر بحران سے نمٹنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہ ہوا تو عالمی طاقتوں کو مداخلت کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ وہ شاید بہت دیر سے آئیں گی، جب تک نقصان ہو چکا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ آبی وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، جیسا کہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو غیر یقینی معطلی میں رکھنا، بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
’چونکہ یہ پاکستان کے عوام کے لیے وجودی خطرہ ہے، اس لیے اگر پانی کے حصے کو روکنے، موڑنے یا تاخیر کا کوئی بھی اقدام کیا گیا، تو جیسا کہ قومی سلامتی کمیٹی واضح طور پر بیان کر چکی ہے، یہ جنگی اقدام سمجھا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ انڈیا نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پر غیرقانونی اور بلا جواز فضائی اور میزائل حملے کیے، جن میں عبادت گاہوں سمیت شہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ شہری جان سے گئے۔
اس سے قبل انڈین فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان نے بھی ہفتے کو اسی فورم میں شرکت کے دوران ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ حالیہ کشیدگی میں پاکستان نے انڈین طیارے مار گرائے، تاہم ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اہم نہیں کہ طیارے گرے، اہم ہے کہ یہ کیوں گرے۔‘
انڈیا نے 22 اپریل 2025 کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب ’آپریشن سندور‘ کے نام سے پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے۔
پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے انڈین الزام کی تردید کرتا ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے مار گرائے گئے، تاہم انڈیا نے اس سے قبل اپنے طیارے مار گرائے جانے کی تصدیق سے گریز کیا تھا۔
31 مئی کو ’بلوم برگ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں میزبان کی جانب سے انڈین طیارے گرنے کے سوال کے جواب میں انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان نے کہا: ’ہمارے لیے یہ اہم نہیں کہ طیارے گرے، یہ اہم ہے کہ یہ کیوں گرے۔‘