انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد کا نیو نارمل

انڈیا پاکستان تعلقات اب ایک ایسے غیر متعین مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ایک معمولی واقعہ ایک بڑے بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

13 اگست، 2023 کو لاہور میں واہگہ بارڈر پر پاکستانی رینجرز (سیاہ وردی میں) اور انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار’بیٹنگ دی ریٹریٹ‘ تقریب میں شرکت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پہلگام میں حملے سے شروع ہونے والی دو ہفتے طویل کشیدگی کے بعد بالآخر 10 مئی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر پر اتفاق ہو گیا اور دونوں طرف کی توپیں فی الحال خاموش ہو گئی ہیں۔

پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد دونوں ممالک نے اپنی اپنی عوام کے سامنے فتح کے ڈنکے بجائے اور کشیدگی میں کمی کا اعلان کیا۔ فی الحال برصغیر میں ایک کمزور اور غیرمستحکم امن قائم ہوا ہے تاہم وقفے وقفے سے سیزفائر کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

یہ خطہ اب بھی جنگ کی تلوار کی دھار پر کھڑا ہے اس لیے امریکہ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین جیسے شراکت دار ممالک کو حالات پر مسلسل نظر رکھنا ہوگی تاکہ ایک اور تصادم نہ چھڑ جائے۔

پہلگام حملے کے فوراً بعد انڈیا نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگا دیا اور ایک غیرجانبدار و شفاف تحقیقات کی پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے ’آپریشن سندور‘ کے تحت کوٹلی، مظفرآباد، مریدکے، بہاولپور اور سیالکوٹ میں مبینہ ’دہشت گرد‘ کیمپوں کو نشانہ بنایا۔

اگرچہ انڈیا نے ان حملوں کو ’مرکوز، نپا تلا اور غیر اشتعال انگیز‘ قرار دیا تاہم ان کے بعد ڈرون حملے، غلط معلومات کی مہمات اور پھر تین پاکستانی ایئر بیسز پر میزائل حملے بھی کر ڈالے۔

جواب میں پاکستان نے ’آپریشن بنیان المرصوص‘ کے تحت 26 انڈین اہداف کو نشانہ بنایا جن میں ایئر بیسز، میزائل ڈپو اور دیگر فوجی تنصیبات شامل تھیں تاکہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا بدلہ لیا جا سکے اور دفاعی توازن بحال کیا جا سکے۔

اس حالیہ بحران کے بعد انڈیا پاکستان تعلقات میں ’نیو نارم‘ یا نئے معمول کے تناظر میں کئی نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔

پہلا، چار سال کی نسبتاً خاموشی کے بعد جس میں پاکستان نے معاشی بہتری اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر توجہ مرکوز کی جب کہ انڈیا چین کے ساتھ ہمالیائی خطے میں سرحدی کشیدگی میں الجھا رہا، اب دونوں ممالک (پاکستان اور انڈیا) کے تعلقات ایک مستقل کشیدگی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

سیز فائر معاہدے کے باوجود لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر امن غیریقینی ہے۔

2016  کے بعد سے ہر بحران نے انڈیا پاکستان کشیدگی کو ایک نئی سطح پر پہنچایا ہے۔ مثال کے طور پر 2016 کے اڑی حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں سرجیکل سٹرائکس کا دعویٰ کیا جبکہ 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں فضائی حملے کیے۔

یہ 1971 کی جنگ کے بعد پہلی بار کسی انڈین جنگی طیارے کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی تھی۔

اب حالیہ بحران میں انڈیا نے میزائل، طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے پاکستان کے اندر حملے کیے تاکہ محدود روایتی جنگ کے لیے گنجائش پیدا کی جا سکے۔ ان حملوں کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی ڈاکٹرائن کو کمزور کیا جائے اور دفاعی ڈیٹرنس کی جو حد پہلے سے قائم تھی، اسے نئے انداز میں مقرر کیا جائے۔

اگرچہ پاکستان نے 26 انڈین فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر اپنی ڈیٹرنس دوبارہ قائم کر دی لیکن سیز فائر کے بعد انڈیا کا یہ کہنا کہ کشمیر میں آئندہ دہشت گرد حملہ ’اقدام جنگ‘ تصور کیا جائے گا، دہلی کی اس پالیسی کو اجاگر کرتا ہے جس میں ہر بحران کو ایک قدم آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

اس کا دوسرا پہلو انڈیا کی معیشت کے فروغ، فوجی طاقت میں اضافے اور امریکہ کے ساتھ اتحاد کے بعد (جو چین کو قابو میں رکھنے کے لیے ہے) نئی دہلی پاکستان کے ساتھ فوجی جھڑپ کے روایتی اصولوں کو بدلنا چاہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا جو نئی ڈیٹرنس پالیسی یعنی 'دہشت گردی کے خلاف کارروائی‘ کے نام پر بنا رہا ہے، انہیں ان بیانات کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے جن میں انڈیا گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو اپنے کنٹرول والے کشمیر میں شامل کرنے کی بات کرتا ہے۔

انڈیا موجودہ صورت حال کو دفاعی توازن سے نکال کر مکمل بالادستی کی طرف لے جانا چاہتا ہے، جس سے راولپنڈی پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی برداشت چھوڑ کر سخت جواب دے۔

خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بحران کا وقت بھی کم ہوتا جا رہا ہے یعنی اب کسی بھی جھگڑے کے بڑے تصادم میں بدلنے کا وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ 1999 کی کارگل جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی دوسرا مرحلہ عبور کر گئی۔

2019 کی فضائی کارروائی کے برعکس اس بار انڈیا نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور پاکستان کے مرکزی مقامات میں نو مختلف اہداف کو نشانہ بنایا۔ اس تناظر میں مستقبل میں کوئی بھی بحران موجودہ کشیدگی سے کہیں زیادہ بڑا تصادم بن سکتا ہے۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ  موجودہ کشیدگی کے دوران سفارتی بیک چینلز، بحران سے نمٹنے کے میکانزم اور ادارہ جاتی حفاظتی اقدامات موجود نہیں تھے جو کہ ایک خطرناک خلا ہے۔ ان کے بغیر یہ بحران جوہری تصادم کی جانب جا سکتا تھا جس سے ایک ارب 70 کروڑ لوگوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا تھا۔

انڈیا کی جانب سے پاکستان کو تنہا کرنے اور مذاکرات سے انکار کے باعث اسلام آباد میں یہ رائے مضبوط ہو چکی ہے کہ مودی حکومت کے ساتھ امن محض ایک خوش فہمی ہے۔ ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہاٹ لائن اور قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان بیک چینل کی بحالی ضروری تو ہے، لیکن کافی نہیں۔

آخر میں تیسرے فریق کی ثالثی کی اہمیت ایک بار پھر سامنے آئی ہے۔ ماضی کے پلوامہ اور بالاکوٹ بحران کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کے ’حق دفاع‘ کی حمایت کی تھی اور پھر فریقین سے تحمل کی اپیل کی۔

لیکن اس بار امریکہ چین سے تجارتی جنگ، یوکرین، غزہ اور ایران کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہا اور کشیدگی کے آغاز میں ٹرمپ نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اور پاکستان ’ہزاروں سالوں‘ سے کشمیر پر لڑ رہے ہیں اور وہ خود اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔

جب کشیدگی عروج پر پہنچی تو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ ہماری امید ہے کہ ’انڈیا اس حملے کا ایسا جواب دے جو خطے میں بڑے تصادم کی طرف نہ جائے۔‘ پاکستان میں اس بیان کو انڈیا کی یکطرفہ جارحیت کی خاموش حمایت سمجھا گیا۔

جب بحران دوسرے مرحلے میں داخل ہوا تو امریکہ نے گھبرا کر فریقین کو کشیدگی کم کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی تاہم امریکہ کے کمزور ہوتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ اور غیر فعال رویے کی وجہ سے برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے جن کے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔

بہر حال انڈیا پاکستان کشیدگی کم ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ دہلی پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ کی نئی جگہ بنانے کے لیے پرانی پالیسی کو بدلنے پر بضد ہے۔ اس خطرناک صورت حال میں علاقائی اور عالمی ثالثوں کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے تاکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھا جا سکے۔

انڈیا پاکستان تعلقات اب ایک ایسے غیر متعین مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ایک معمولی واقعہ ایک بڑے بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایک موثر ادارہ جاتی فریم ورک کی تشکیل اور نئے اعتماد سازی کے اقدامات نہایت ضروری ہیں تاکہ کسی بھی خطرناک غلطی سے بچا جا سکے۔

ایک ایسا ماحول جہاں معمولی غلطی کی گنجائش بھی دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر