’ابنارمل ریاست‘ کے پہلو میں ’فلسطینی ریاست‘ تسلیم کرنے کی باتیں

فلسطینیوں کے بغیر فلسطین جس کے بھی سپرد کیا جائے گا، وہ اسے زیادہ دیر سنبھال نہیں سکے گا بلکہ اس کا اپنا سنبھلنا مشکل ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو 13 اگست 2025 کو مقبوضہ بیت المقدس میں نیوز میکس کے زیر اہتمام امریکی یوم آزادی، جسے ’فورتھ آف جولائی‘ جشن کے نام سے جانا جاتا ہے، کے موقعے پر ایک بیان دیتے ہوئے (اے ایف پی)

اسرائیل کے لیے امریکہ ایک طویل عرصے سے کوشاں ہے کہ اسے عرب مملکتیں بشمول اسلامی ممالک ایک ’نارمل ریاست‘ کے طور پر تسلیم کر لیں، تاکہ اسرائیلی ریاست کے لیے عرب و عجم کے وہ سارے دروازے بھی کھل جائیں جو ابھی تک بند چلے آ رہے ہیں۔

کچھ عرصے سے ان امریکی کوششوں کا محور ابراہم معاہدات ہیں۔ ظاہری علامات کافی حد کامیابی کی نوید سنا رہی ہیں، تاہم اب تک اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ سعودی عرب کو کہا جاتا رہا ہے کہ جب تک سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، بڑا سنگ میل عبور نہیں ہو گا۔

سعودی عرب کی فرانس کے ساتھ مل کر نیویارک میں کی گئی حالیہ فلسطین کانفرنس علاقائی امن کے لیے اس کے خلوص کا مظہر تھی، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں اسرائیلی ریاست تسلیم کرنے کا مشروط عندیہ بھی دیا گیا۔

جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں یہ دو روزہ کانفرنس ایک اہم موڑ تھی مگر اسرائیل و امریکہ کا اس کے بارے میں رویہ توہین آمیز محسوس ہوا۔

اگرچہ اسرائیل کسی بھی صورت ایک نارمل ریاست نہیں ہے۔ اس کے قیام سے لے کر اس کی ساری تاریخ تک اور پچھلے تقریباً دو برسوں سے غزہ میں اسرائیلی ریاست کی خوفناک جنگ اس امر کی غیر معمولی گواہیاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری عالمی جنگ کے بعد نئے عالمی نظام میں قومی ریاستوں کی تخلیق کے تناظر میں بھی اسرائیلی ریاست پر کئی سوال موجود ہیں۔ اسرائیل کے شہری قرار پانے والوں کے آبا و اجداد صدیوں سے یورپ و امریکہ وغیرہ کے باسی تھے، لیکن انہیں ایک اسرائیلی ریاست کے لیے بھرتی کے مال کے طور پر دور دراز کے ملکوں سے گھیر گھار کر مشرق وسطیٰ لایا گیا۔

ان میں جرمن قوم سے لے کر روسی قوم کے نمائندہ افراد، امریکی، برطانوی، آسٹرین، فرانسیسیوں سمیت تقریباً سبھی یورپی اقوام سے تعلق رکھنے والے یورپی لوگ شامل تھے، جنہیں ایک اسرائیلی قوم بنانے کی غیر حقیقت پسندانہ کوشش کی گئی۔

بعض لوگ غلط تجزیے کی بنیاد پر اسرائیلی ریاست کی تخلیق کو پاکستان سے ملاتے ہیں، مگر یہ درست مثال نہیں۔ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ ہندوستان میں صدیوں سے اکٹھی رہنے والی دو اقوام کی بنیاد پر پاکستان اور انڈیا دونوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ بعد ازاں دونوں ملک اور اقوام ہر معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف قرار پائیں۔ انڈیا کے شہری بن جانے والے لوگ پاکستان کے شہری نہ رہے اور پاکستان کی شہریت اختیار کرنے والے انڈین شہری نہ رہ سکے۔

جبکہ اسرائیل میں رنگ برنگے قومی پس منظر رکھنے والے لوگ آج اسرائیل کے بھی شہری ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، سویڈن، آسٹریا، اٹلی، سپین وغیرہ کے بھی شہری ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کی تقسیم پرامن اور جمہوری انداز میں ہوئی، جبکہ اسرائیل کا وجود ممکن بنانے میں تسلط، قبضے اور دہشت گردی بنیادی عوامل رہے۔ اسرائیلی ریاست کی فوج آج بھی ان یہودی دہشت گرد تنظیموں کی یادگار ہے۔

نیز آج بھی دیگر ملکوں سے یہاں لا کر بسائے گئے لاکھوں اسرائیلی فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ہیں اور اسرائیل کا فلسطین کے بہت سے حصوں پر قبضہ آج بھی تنازعے کی بنیاد ہے۔

 

اسرائیل ان معنوں میں بھی نارمل ریاست نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کاوش میں تخلیق پانے والے عالمی ادارے اقوام متحدہ کی قرارداد کا بھی اسرائیل کے قیام میں دخل ہے۔

لیکن اسرائیلی ریاست اقوام متحدہ کی بہت سی قراردادوں، اس کے اہم اداروں کی منکر ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں میں بین الاقوامی عدالتیں، جوہری پروگراموں کی مانیٹرنگ کے ادارے ’آئی اے ای اے‘ ہی نہیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور امدادی ادارے بھی اسرائیل کو قبول نہیں۔

نہ صرف یہ بلکہ جن فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر کے مغربی ممالک اسرائیل کو عدم سے وجود میں لائے، اسرائیل ان فلسطینیوں کو ان کی آبا و اجداد کی زمین پر بھی برداشت کرنے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

اس کے باوجود اسرائیل کو کئی ملکوں سے تسلیم کروا لیا گیا ہے اور مزید کئی کو تقریباً راضی کر لیا گیا ہے، مگر اسرائیلی ریاست فلسطینی ریاست کا قیام قبول کرنے کو بھی آمادہ نہیں۔ حتیٰ کہ غزہ کا محاصرہ اور فلسطینیوں کی نسل کشی ختم کرنے کو بھی تیار نہیں۔

مزید یہ کہ اسرائیلی ریاست نے غزہ پر کنٹرول وسیع کرنے کے لیے ایک نئے وسیع تر جنگی منصوبے کا اعلان کر دیا ہے تاکہ مزاحمت کی سرخیل فلسطینی تنظیم حماس کا خاتمہ کر سکے، اسرائیلی قیدی رہا کروائے اور غزہ پر فلسطینیوں کی ایسی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے، جس کا حماس سے کوئی تعلق نہ ہو۔ نیز سلامتی کے حوالے سے اسرائیل کے لیے چیلنج نہ بن سکے۔

اسرائیلی ریاست کا یہ فیصلہ بلا جواز ہونے کے لیے کافی ہے کہ اس کی دنیا بھر میں بھی مذمت جاری ہے اور خود اسرائیل کے اندر سے بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم جو بین الاقوامی فوجداری عدالت کو پچھلے سال ماہ مئی سے جنگی جرائم میں مطلوب ہیں۔ وہ عجلت میں ہیں کہ عدالتی فیصلوں سے پہلے غزہ کو فلسطینیوں سے ’پاک‘ کر سکیں۔

انہوں نے اپنی مٹھی بھر سکیورٹی کابینہ سے یہ فیصلہ اس وقت کروایا ہے جب اسرائیلی پارلیمنٹ سالانہ تعطیلات پر ہے اور اسرائیل کی اعلیٰ عدالتیں بھی چھٹی پر ہیں۔ یوں بغیر کسی مباحثے اور رکاوٹ کے نتن یاہو نے اپنی جنگی ہوس کو ایک منصوبے میں ڈھال دیا ہے۔ حالانکہ پچھلے ماہ ہی وہ  ’امن کے ایک کھلاڑی‘ کے طور پر صدر ٹرمپ کے لیے امن کے نوبیل انعام کی سفارش کرتے پائے گئے۔

نتن یاہو کے اس نئے جنگی منصوبے کی اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر بھی مخالفت کر چکے ہیں۔ اسرائیلی اپوزیشن اس منصوبے کو اسرائیل کے لیے بھی خطرناک بتا رہی ہے۔ نیز یہ کہ جنگ کے اس نئے منصوبے کے اعلان کے اگلے ہی روز ہزاروں اسرائیلی تل ابیب میں نئے جنگی منصوبے اور غزہ جنگ کے خلاف جبکہ جنگ بندی معاہدے کے حق میں سڑکوں پر تھے۔

اسرائیلی فوج کے ’ریزروز‘ میں بھی غزہ جنگ سے اکتاہٹ، تھکاوٹ اور بیزاری اب ناراضی اور جنگ میں شرکت سے انکار میں بدل رہی ہے۔

لیکن نتن یاہو اس جنگ کو مزید کئی ماہ تک پھیلانے اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے لاکھوں کی تعداد میں کسی دوسرے ملک میں دھکیلنے کو بے تاب ہیں۔

اس سلسلے میں لیبیا کے مدار المہام فیلڈ مارشل صدام خلیفہ خفتر کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ وہ کم از کم آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو امریکی فرمائش پر لیبیا میں رکھنے کو تیار ہیں۔

81 سالہ فیلڈ مارشل خلیفہ خفتر، چند ہفتے پہلے جن کی میزبانی کی سعادت پاکستان کو بھی حاصل ہوئی ہے، کے بارے میں معروف ہے کہ وہ امریکہ کو بہت عزیز ہیں۔ اتفاق سے وہ لیبیا کی فوج کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی شہریت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔

صدر ٹرمپ اور نتن یاہو نے اسرائیلی ریاست کے نئے جنگی منصوبے پر بین الاقوامی سطح سے آنے والے ردعمل کے بعد باہم راز و نیاز بھی کر لیے ہیں۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ سٹیو وٹکوف نے بھی پچھلے ہی دنوں نئی منصوبہ بندی پر تبادلہ خیال کر لیا تھا۔

اس منصوبے کے مخالفین کے لیے اسرائیلی ریاست کا غضب کس قدر زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے ماہ ستمبر کا تعین کرنے والے فرانسیسی صدر میکروں کو اسرائیلی یہودی مذہبی پیشوا (ربی) ڈینیئل ڈیوڈ کی طرف سے ملنے والی قتل کی دھمکی سے کیا جا سکتا ہے۔ ربی نے صدر میکروں کو ایک ویڈیو میں کہا ہے ’تمہارے لیے اب یہی بہتر ہے کہ اپنا تابوت خود تیار کر لو۔‘

کوئی نارمل ریاست ایسی ہو سکتی ہے کہ اس کا ایک مذہبی پیشوا یورپی یونین کے ایک بڑے ملک کے سربراہ کو اس طرح قتل کی دھمکی دے اور وہ ریاست دہشت گردی کے زمرے میں نہ آئے یا دنیا میں بدنامی کی لمبی مہم کی زد میں نہ آئے؟

اس نارمل ریاست کے طور پر وجود میں نہ آنے والے اسرائیل کی حیثیت مافیاز کو ’بلیک منی‘ سے حاصل ہونے والی دولت کی ہے، جسے وہ بعد ازاں غیر قانونی منی لانڈرنگ کے ذریعے ’وائٹ منی‘ میں تبدیل کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک بڑا واقعہ الازہر یونیورسٹی کے مفتی اعظم ڈاکٹر احمد الطیب کا غزہ جنگ کے پس منظر میں دیے گئے نفیر عام کا فتویٰ روکنے سے سامنے آیا ہے۔ اس فتوے کو عام ہونے سے پہلے ہی واپس کروا دیا گیا اور کئی مملکتوں میں ہلچل پیدا ہونے کا پیشگی سدباب ہو گیا۔ مصری حکومت پہلے ہی اپنے سفارت خانوں پر حملوں کے ممکنہ خطرات سے نمٹ رہی ہے۔

یہ صورت حال اس کے باوجود درپیش ہے کہ حماس نے شروع سے ہی اپنی جدوجہد کا دائرہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر تک محدود رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ حماس کا دہائیوں پہلے کیا گیا یہ فیصلہ کسی بھی وجہ سے ہوا مگر یہ آج بھی بین الاقوامی سطح پر امن کے حق میں ہے۔

ان حالات میں امریکہ کو چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں پر دباؤ اور بوجھ کو اس حد تک نہ بڑھائے کہ ان کی ہمت جواب دے جائے۔ تسلیم و رضا اور تعاون ایک حد تک ہی ہو سکتا ہے۔ ہلاکت خیز غزہ جنگ طویل ترین ہو چکی ہے۔

امریکہ جس ریاست کو نارمل ثابت کرنے کی کوشش میں ہے، اس کا ہر اقدام اس کے ایک ’ابنارمل ریاست‘ ہونے کا تاثر گہرا کر رہا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو خطے میں مسلح پولیس کے طور پر برتاؤ کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔ اس کے حوالے سے پہلے ہی عوامی سطح پر مختلف ملکوں کو مشکلات کا اندیشہ ہے کہ اسے تسلیم کرنا فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کی تباہی و قبضے کے بدلے میں اسرائیل کو سند امتیاز دینے کے مترادف ہو گا۔

فلسطینی اتھارٹی سے لے کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی، لیبیا اور پاکستان ہی نہیں مغربی دنیا بھی اسرائیلی ریاست کے نئے جنگی منصوبے کی مذمت کر رہی ہے۔ آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ حتی کہ مالٹا تک نے تو اس نئے منصوبے کے جلو میں ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آخر کب تک تباہ حال لیبیا کے فیلڈ مارشل اپنی عوام کی منشا کے برعکس وعدے کرتے اور زبان دیتے رہیں گے۔

خلیفہ خفتر بطور فیلڈ مارشل کتنے بھی طاقتور ہوں یا انہیں تیل کے کتنے ہی ذخائر کی نوید مل گئی ہو وہ اپنے عوام کی منشا کو حد سے زیادہ کچل کر لاکھوں فلسطینیوں کے غزہ سے انخلا میں اپنے کاندھے پیش نہیں کر سکیں گے۔

فلسطینیوں کے بغیر فلسطین جس کے بھی سپرد کیا جائے گا، وہ اسے زیادہ دیر سنبھال نہیں سکے گا بلکہ اس کا اپنا سنبھلنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ اسرائیل کا نیا جنگی منصوبہ روکا جائے اور فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا روک ترسیل کی سبیل پیدا کی جائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر