کیا تعبیریں خواب اور حقیقتیں سراب بن سکتی ہیں؟ کیا یقین امید کا روپ دھار سکتا ہے؟ آج فلسطینی شاعر محمود درویش زندہ ہوتے تو کیا مرثیہ لکھتے؟ وہ لکھ چکے ہیں کہ
زمین تنگ ہو رہی ہے
ہمیں آخری راستے پر دھکیل رہی ہے
اس میں سے گزرنے کے لیے ہم اپنا ایک ایک عضو الگ کر رہے ہیں
زمین ہمیں جکڑ رہی ہے
کاش ہم گندم ہوتے اس زمین پر مرتے اور جی اٹھتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلسطین کی ریاست تو دریا سے سمندر تک تھی۔ قبلہ اول دارالحکومت اور بیت المقدس کا حصول فلسطینیوں ہی نہیں تمام مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا حصہ تھا۔ دریا سے لے کر سمندر تک کی ریاست 1948 میں تعبیر سے خواب کی طرف لوٹ گئی۔
مہمان بن کر آنے والے حاکم اور مختصر قیام سے مکان بنا لینے تک کا سفر اسرائیل کی ریاست نے بغیر کسی مشکل اور بنا کسی دقت کے طے کر لیا۔
اردن نے راستہ روکنے کی کوشش کی تو نشان عبرت بنا، عرب کی مزاحمت زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی، یہاں تک کہ مکمل شکست کو مصلحت کا نام دے کر سر یوں جھکایا کہ کبھی اٹھا ہی نہیں۔
سرحدوں کو لگنے والے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک خاموشی کی وہ فضا بنائی گئی کہ آواز نے سمجھوتہ کر لیا۔ اور پھر یہ ہوا کہ فلسطین مسلمان ممالک کے اجلاسوں کی نشستوں میں فقط گفتگو تک محدود ہو گیا۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اچانک سرحد پار کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کیا اور 251 افراد کو یرغمالی بنا کر ساتھ لے آئے۔ اس سے قبل بھی اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ستم کی آگ ٹھنڈی نہ تھی لیکن اب تو جیسے ظلم کو جواز فراہم ہو گیا۔
اسرائیل نے غزہ پر ایک نئی یعنی نیو نارمل جنگ لاگو کی، ہزاروں فلسطینی آگ کا ایندھن بنے اور جو بچ گئے وہ بھوک اور پیاس کی آزمائش پر پورا اترتے روز جان کھوتے رہے۔ مؤذن کی اذان میں دم نہ رہا، بچوں کی قلقاریاں چیخوں میں اور آوازیں سسکیوں میں بدل گئیں۔
اب دوسال کی طویل جنگ میں غزہ کسی پرانی صدی کا اجڑا ہوا قبرستان محسوس ہوتا ہے۔ حد سے بڑھی وحشت دہشت میں بدل چکی اوراب جب غزہ میں کچھ نہیں بچا تو ’امن معاہدہ‘ منہ چھپاتی مسلم امہ کے ہاتھ اپنے اپنے مفادات کا پرزہ بن چکا ہے۔
’غزہ امن معاہدہ‘ کس امن کے لیے ہے؟ معاہدہ تو دو برابر کی قوتوں کے درمیان طے پاتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ ایک مفتوحہ علاقے جس کی عوام کی اکثریت بربریت کی بھینٹ چڑھ چکی، حماس کی قیادت ایک ایک کر کے مارد دی گئی، خطے کی مسلمان قیادت کو چن چن کر مارا گیا۔
اسرائیل کی راہ میں جو آیا وہ سر دار چڑھا۔ بچ جانے والی سوختہ جانوں سے کون پوچھے گا کہ فیصلہ کیا ہے؟ ستم ظریفی کہ فیصلہ بھوک اور دہشت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہے اور یہ فیصلہ غزہ کے بسنے والوں کے ہاتھ بھی نہیں۔
مسلمان ممالک غزہ میں امن چاہتے ہیں اور ادھر قطر پر حملہ مسلم ملکوں کی خاموشی کا آخری نقطہ بنا جبکہ امریکہ کا تیر بہدف پہنچا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے اور یوں آناً فاناً۔۔ چند گھنٹوں میں بیس نکات بنے بھی، قبول بھی ہوئے اور اب کئی مسلم ممالک بشمول پاکستان ماننے کو تیار بھی نہیں۔
پہلے 21 نکات، پھر 20 نکات، پھر ترمیم شدہ مسودے کا واویلا اور پھر تسلیم شدہ مسودے کی گفتگو۔۔ اس سب میں دراصل تحریف شدہ مسودہ ہی اصل جگہ پائے گا۔
پاکستان میں اس مسئلے پر کوششوں اور جلد بازی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ سب سے پہلے معاہدے کی آشیر باد وزیراعظم شہباز شریف کے لیے سیاسی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق یقین کی حد تک افواہوں نے پاکستان کے اندر اور باہر ارتعاش پیدا کیا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھتے ہوئے فلسطین کے دو ریاستی حل کو مسترد کیا تھا کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ حل کشمیر کے مسئلے کے حل کی راہ فراہم کرے گا جو کسی صورت ناقابل قبول ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عرب ریاستیں اور فلسطینی ریاست اسے تسلیم کر چکے ہیں۔
پاکستان سرزمینِ فلسطین کے دو ریاستی فارمولے کا حامی ہے، تو کیا صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر کے کسی ایسے حل پر بھی ہم تیار ہوں گے؟
اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعل کے بغیر والی حماس آمادہ ہے اور بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ حماس آنے والے دنوں میں غیر مشروط رضامندی کا اظہار بھی کر سکتی ہے۔
کون جانے اسرائیل اس معاہدے کی دھجیاں کب اڑائے کیوں کہ اس کی نگاہ میں ’گریٹر اسرائیل‘ کا خواب ہے جس کی کوئی سرحد نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈںٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔