امریکہ میں امیر ہونا ہے تو ٹرمپ خاندان کا حصہ بننا ہو گا

صدر اور ان کے خاندان نے عہدے پر رہنے کے دوران پہلے ہی بہت زیادہ دولت کما لی ہے لیکن ٹرمپ کی قابل اعتراض مالی اخلاقیات کو ان کے سیاسی مخالفین کی طرف سے مدد ملی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 30 ستمبر 2025 کو وائٹ ہاؤس واپس لوٹتے ہوئے اوول آفس آپریشنز کے ڈائریکٹر والٹ ناؤٹا (بائیں) کے ساتھ راہداری میں سابق امریکی صدور کی تصاویر کے پاس سے گزر رہے ہیں (برینڈن سمیالووسکی / اے ایف پی)

رواں ہفتے فوربز میگزین میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بچوں نے ان کی دوسری مدت صدارت کے دوران کتنی دولت جمع کی؟

آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں فرسٹ فیملی کے ارکان کے خود کو مالا مال کرنے پر خوب شور مچا تھا۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ اس میں خاص طور پر بے باک تھے۔ ٹرمپ کے ملکیتی ہوٹلوں میں قیام وغیرہ کے عوض سیکرٹ سروس سے بھاری رقوم لینا؟ مالی فائدے پر خوشی کا اظہار۔  ڈیموکریٹس کی کانگریس کمیٹی برائے نگرانی اور جواب دہی کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی حکومتوں سے کروڑوں ڈالر کی ادائیگیاں وصول کرنا۔ مالی فائدے پر خوشی کا اظہار۔

لیکن یہ سب باتیں اس کے مقابلے میں پس منظر میں چلی جاتی ہیں کہ دوسری مدت کے دوران امریکی صدارت بظاہر ٹرمپ آرگنائزیشن کا ایک ذیلی ادارہ بن چکی ہے اور وہ بھی غیر معمولی طور پر منافع بخش۔

فوربز نے اس کے پیمانے کی رپورٹنگ کر کے واقعی ایک عوامی خدمت انجام دی ہے، جو حقیقتاً چکرا دینے والی ہے۔ کرپٹو کرنسی، جسے صدر نے پرجوش انداز میں فروغ دیا ، ٹرمپ کی اندازاً خالص دولت میں گذشتہ سال تین ارب ڈالر (2.2 ارب پاؤنڈ) کے زبردست اضافے کا دو تہائی حصہ بنتی ہے۔

اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کرپٹو ایک نہایت اتار چڑھاؤ والا اثاثہ اور کاروبار ہے، جس کا سہارا محض اس کی مقبولیت ہے، ان ٹیک حلقوں میں جو اس سے جوا کھیلتے ہیں۔ اس کے پیچھے سونے جیسی کوئی بنیادی جنس موجود نہیں اور نہ ہی اس میں سرمایہ کاری کرنا کسی ایسی عام، رجسٹرڈ کمپنی کے شیئرز خریدنے جیسا ہے جس کے پاس باقاعدہ گاہک، مالی حساب کتاب اور ایک قابل بھروسہ آمدنی ہو۔

کسی وقت مارکیٹیں یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ ’ارے، بادشاہ نے تو کپڑے ہی نہیں پہن رکھے۔‘ اور پھر بائے بائے، بے بی۔ پوری دنیا میں غم و غصے اور پچھتاوے کی آوازیں سنائی دیں گی۔

لیکن ٹرمپ زیادہ دیر تک روئیں گے نہیں، اگر روئے بھی تو انہوں نے ٹرمپ نام کی لائسنسنگ سے معقول 40 کروڑ ڈالر بھی کما لیے ہیں۔ ان کے بچے، ڈون جونیئر، ایرک، ایوانکا اور ان کے شوہر جیرڈ کشنر، حتیٰ کہ نیو یارک یونیورسٹی کے دوسرے سال کے طالب علم بیرن، سب اس کھیل میں شامل ہو چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ خاندان کی مجموعی دولت ایک ہی سال میں دوگنی ہو کر 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

وہ مشرق وسطیٰ میں میل جول بڑھا رہے ہیں۔ بیداری مخالف کاروباری برادری کو مشورے دینا اور مزید ایسے ہی کام۔

تاہم کرپٹو کرنسی اس وقت کی ایک بڑی محرک قوت ہے، خاص طور پر امریکی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اور ان کے بیٹوں کے ورلڈ لبرٹی فنانشل نامی کمپنی کی مشترکہ طور پر بنیاد رکھنے کی وجہ سے۔ ٹرمپ کی جیت کے بعد اس کمپنی کے ڈیجیٹل ٹوکن ڈالر ڈبلیو ایل ایف آئی کی قدر میں زبردست اضافہ ہوا۔

امریکہ کے لیے، بطور سیاسی اکائی اور قوم، یہ اتنا اچھا نہیں رہا۔ نیو یارک ٹائمز نے اس کارروائی کو یوں بیان کیا کہ اس نے ’نجی کاروبار اور حکومتی پالیسی کے درمیان حد فاصل کو ایسے ختم کر دیا ہے، جس کی جدید امریکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔‘

سچ تو یہ ہے کہ صدور کے لیے اپنے ان اخلاقی ضابطوں میں نرمی لانا، جو ان پر لاگو ہیں یا ہونے چاہییں، کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ اسی طرح ان کے خاندانوں کا اپنے تعلق سے فائدہ اٹھا کر کمائی کی کوشش کرنا بھی غیر معمولی نہیں۔ ڈیموکریٹس ایسا ہی کرتے ہیں جیسے رپبلکن کرتے ہیں۔ ان کے خاندان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمی کارٹر کے بھائی بلی اور بلی بیئر کی اس کی پرجوش تشہیر یاد کریں۔ بس جنوبی گڈ اولڈ بوائے والی ذرا سی دل لگی، مگر معمر قذافی کی لیبیا میں حکومت سے ان کے روابط یقیناً کوئی مذاق نہیں تھے۔ امریکہ کا شور انگیز قدامت پسند میڈیا کلنٹن خاندان کے کاروباری معاملات سے طویل عرصے سے بھرپور مواد کشید کرتا آیا ہے، ہنٹر بائیڈن کے معاملات کا تو ذکر ہی کیا۔

اپنے آپ کو مالا مال کرنا عموماً سابق صدور کی عہدہ چھوڑنے کے بعد کی سب سے بڑی فکر ہوتی ہے۔ اوباما خاندان یقیناً تنگ دستی میں نہیں۔ جارج ڈبلیو بش بھی نہیں۔ کلنٹن خاندان بھی نہیں۔

سابق برطانوی وزرائے اعظم کے بارے میں بھی یہی بات درست ہے۔ مگر اس دولت سمیٹنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ساتھ ’ایکس‘ لگا ہوتا ہے۔ بینکوں اور شاید غیر ملکی حکومتوں کو مشورے دینا، شیخوں کے ساتھ میل جول رکھنا اور نام و روابط بیچنا زیادہ سے زیادہ نازیبا ہے، شاید غیر شائستہ بھی، لیکن وہ عام شہری ہوتے ہیں اور جب عہدے کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں تو ریٹائرمنٹ میں آسائش ڈھونڈنے کا انہیں حق ہے۔ ٹرمپ یہ سب عہدے پر ہوتے ہوئے کر رہے ہیں، جو بالکل مختلف معاملہ ہے اور وہ بھی اس درجے تک جس کی مثال نہیں ملتی۔

اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کھلم کھلا کیا۔ روزی کمانے اور بل ادا کرنے والوں کو اقتصادی قوم پرستی کے امتزاج (ٹیرفس) سے راضی کر کے، اور امیگریشن سے متعلق ان خدشات پر پیٹرول چھڑک کر، جو ان کے منتخب ہونے سے پہلے ہی موجود تھے۔

زیادہ تر لوگ یہ جانتے ہیں۔ ٹرمپ وہی ہیں جو ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ان کے خاندان کے افراد بھی وہی ہیں جو ہیں۔ بھانڈا پھوڑنے کے لیے نہ تو ڈیپ تھروٹ (واٹر گیٹ سکینڈل کے دوران معلومات فراہم کرنے والے شخص) کی ضرورت تھی اور نہ ہی آج کے دور کے ووڈورڈ اور برنسٹین خاندانوں کی مہینوں پر محیط جانفشانی سے کی گئی تحقیق کی۔ سب کچھ تو پہلے ہی کھلے عام موجود تھا۔

ٹرمپ خاندان اس لیے بچ نکلا کہ اسے ایسا کرنے دیا گیا، جزوی طور پر اس کے مخالفین کی نااہلی کے باعث۔ امریکی ووٹروں نے، حالاں کہ بہت سوں بلکہ اکثر کو معلوم تھا کہ یہ شیطانی سمجھوتہ ہے، پھر بھی اس پر رضامندی ظاہر کر دی کیوں کہ وہ اس کے مخالفین کو اجنبی سمجھتے تھے۔ نااہل، عوام سے کٹے ہوئے اور امریکہ کے اعلیٰ کالجوں کے ہاسٹلوں میں رہنے والوں اور ساحلی علاقوں کی حد درجہ لبرل آبادیوں کے مسائل میں الجھے ہوئے۔

ان خدشات کا عام امریکیوں پر اثر نہیں ہوتا۔ وسط مغربی سوئنگ ریاستوں کے نتائج اس کے گواہ ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر