ٹک ٹاک بوم دراصل اس سوشل میڈیا ٹائم بم کی ٹِک ٹِک ہے، جو مرڈوک خاندان کی جانب سے چینی ایپ کی امریکی شاخ کی خریداری کے امکان کے بعد پھٹنے کو تیار ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جنوری میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا، جس میں ’جنریشن زی‘ کی پسندیدہ ایپ کو بند کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس کی بڑی وجہ امریکی شہریوں کے ڈیٹا کا بیجنگ کے ہاتھوں میں جانے کا خدشہ تھا کیونکہ ٹک ٹاک کی اصل مالک بائٹ ڈانس نامی ایک چینی کمپنی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ٹک ٹاک اب امریکی معیشت کے پہیوں میں ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ صرف ’انفلوئنسرز‘ ہی نہیں جو اس ویڈیو ایپ پر مواد ڈال کر آمدنی کماتے ہیں بلکہ بے شمار چھوٹے کاروبار بھی اس پر انحصار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سوں کے لیے یہ ایپ ایک انقلابی تبدیلی ثابت ہوئی ہے، اس لیے اگرچہ پابندی کا قانون پاس ہو چکا ہے مگر ابھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
ٹرمپ اسے بائٹ ڈانس پر دباؤ ڈال کر حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی امریکی سرگرمیاں مقامی خریداروں کو بیچ دے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں مرڈوکس اور ٹرمپ کی حمایت یافتہ دیگر کاروباری شخصیات میدان میں اتر گئی ہیں۔ صدر چاہتے ہیں کہ ٹک ٹاک امریکہ، ان کے دوستوں کے ہاتھ میں ہو۔
اتوار کو فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ’امریکن پیٹریاٹس‘ (امریکی محب الوطن افراد) کے طور پر اوریکل کے چیئرمین لیری ایلیسن اور ڈیل کے بانی مائیکل ڈیل کے نام لیے۔ ٹرمپ نے کہا: ’میرا خیال ہے وہ بہت اچھا کام کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’روپرٹ شاید اس گروپ میں شامل ہوں گے، میرا خیال ہے وہ اور چند دوسرے لوگ بھی اس میں ہوں گے۔‘
لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ خطرناک کون ہے؟ بیجنگ؟ یا وہ خاندان جس نے دنیا کو انتہائی دائیں بازو نظریے والا فاکس نیوز دیا؟ مرڈوکس کے زیر ملکیت ٹک ٹاک کیسا نظر آئے گا؟ شاید کچھ ایسا ہی جیسا ایلون مسک کے تحت ٹوئٹر اب ’ایکس‘ دکھائی دیتا ہے۔
ٹک ٹاک کے ناقدین کہتے ہیں کہ پلیٹ فارم اپنی پالیسیوں میں بائیں بازو کے لیے نرم ہے، ان کی سخت باتوں کو برداشت کرتا ہے، لیکن قدامت پسند خیالات یا وہ رائے جو سرگرم بائیں بازو کے کارکنوں کو ناگوار لگے، اسے فوراً روک دیتا ہے۔ اگر مرڈوکس یا ٹرمپ کے حامی اس پر قابض ہو گئے تو یہ صورت حال تقریباً یقیناً بدل جائے گی۔
تاہم آزاد اظہار کے حامیوں کو سب سے زیادہ فکر ٹک ٹاک کے الگورتھم کی ہونی چاہیے۔ یہ صارفین کا تجزیہ کرنے اور انہیں ایسا مواد فراہم کرنے میں دنیا کے بہترین الگورتھمز میں سے ایک ہے جو انہیں ایپ سے جوڑے رکھتا ہے۔ یہی ٹک ٹاک کی کامیابی کا راز ہے۔ اگر اس الگورتھم کو اس طرح بدلا گیا کہ یہ قدامت پسند مواد یا سازشی نظریات کو نہ صرف اجازت دے بلکہ انہیں بڑھاوا بھی دے اور سیدھا نوجوان صارفین تک پہنچائے تو پھر معاملہ واقعی خوفناک بن جائے گا۔
لیکن یہ ٹرمپ ہیں جن کی بات ہو رہی ہے۔ اپنے وعدے پورے کرنے کے معاملے میں وہ سب سے زیادہ غیر مستقل مزاج شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ اس سودے کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں، خاص طور پر مالی معاملات کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائٹ ڈانس کے حالیہ ’ایمپلائی شیئر بائی بیک‘ نے کمپنی کی مالیت کا تخمینہ 330 ارب ڈالر لگایا ہے۔ 2024 میں ٹک ٹاک کی آمدنی کا اندازہ 32 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس میں سے 12 ارب ڈالر صرف امریکی مارکیٹ سے ہیں۔
اس کاروبار کو خریدنے کے لیے غیر معمولی رقم درکار ہوں گی، چاہے یہ جبری فروخت ہی کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ ٹرمپ نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی جب وہ روپرٹ مرڈوک کے اخبار وال سٹریٹ جرنل کے خلاف ایک نازیبا نظم اور خاکے کو لے کر مقدمہ دائر کر چکے ہیں۔ صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے 2003 میں مجرم جیفری ایپسٹین کی 50ویں سالگرہ کے لیے بنائی گئی کتاب میں ایک فحش نظم اور خاکہ شامل کیا تھا۔ حالانکہ مرڈوکس حال ہی میں ٹرمپ کے سرکاری عشائیے میں بھی شریک ہوئے لیکن یہ رکاوٹ اب بھی باقی ہے۔
پھر بھی روپرٹ اور لاکلان مرڈوک کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سٹریمنگ کے اس دور میں وہ ارب پتی طبقے کے سب سے بڑے شکست خوردہ لگ رہے تھے۔ اگرچہ فاکس نے اپنے زیادہ تر انٹرٹینمنٹ اثاثے ڈزنی کو 71 ارب ڈالر کے عوض بیچ دیے، جن میں ٹوئنٹی ایتھ سنچری فاکس، ایکس مین، ایلین اور اواٹار جیسی فلم سیریز، ایف ایکس چینل، ہولو میں 30 فیصد حصہ اور نیشنل جیوگرافک شامل تھے۔
لیکن اس سودے کو بہت سے لوگوں نے اس بات کا اعتراف سمجھا کہ فاکس اب نیٹ فلکس اور دیگر نئی بڑی میڈیا کمپنیوں کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یوں کمپنی ایک سٹریٹجک بند گلی میں پھنس گئی۔ اس کے پاس صرف خبروں اور کھیلوں کا کاروبار بچا جو بلاشبہ منافع بخش ہے مگر وہ عالمی سلطنت نہیں، جس سے مرڈوکس نے اپنی پہچان بنائی تھی۔ (ان کا پبلشنگ بزنس الگ کمپنی کے تحت ہے)۔
اب حالات پھر سے بدل گئے ہیں۔ سٹریمنگ کی سبسکرپشنز جمود کا شکار ہیں۔ سروسز بہت زیادہ ہیں اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے صارفین نے ان کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے۔ جبکہ ٹک ٹاک؟ یہ بالکل مفت ہے۔ جب ہر شخص مہنگائی سے متاثر ہو رہا ہے تو یہ خصوصیت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جین زی اور بڑی تعداد میں ملینیئلز کی نظریں اسی پر جمی ہیں۔ اگر مرڈوکس اس ایپ پر قابض ہو گئے تو ان کی سلطنت دوبارہ چوٹی پر پہنچ سکتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ خود کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
© The Independent