غزہ میں بدھ کو اسرائیلی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں کم از کم 16 فلسطینی شہری جان سے گئے جب کہ غزہ شہر کے گرد فوجی محاصرہ مزید سخت کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ان کارروائیوں میں شدت اس وقت لائی جا رہی ہے جب کہ دنیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے پر حماس کے ردعمل کی منتظر ہے۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق جان سے جانے والوں میں وہ افراد بھی شامل تھے جو غزہ شہر میں بے گھر افراد کے لیے قائم ایک سکول میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ مشرقی غزہ سٹی کے علاقے زیتون میں واقع ’الفلاح سکول‘ کو چند منٹ کے وقفے سے دو بار نشانہ بنایا گیا۔ الاہلی ہسپتال کے حکام کے مطابق متاثرین میں ریسکیو اہلکار بھی شامل ہیں۔
اسی ہسپتال کے مطابق بعد ازاں بدھ کی صبح پانچ مزید فلسطینی اس وقت جان سے گئے جب شہر کے مغربی حصے میں پینے کے پانی کے ایک ٹینک کے قریب جمع لوگوں پر فضائی حملہ کیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی (AFP) کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو اعلان کیا کہ غزہ شہر کے گرد فوجی محاصرہ مزید سخت کیا جائے گا۔ ان کے بقول شہریوں کے لیے آخری وارننگ ہے کہ وہ شہر کے جنوبی حصوں کی طرف منتقل ہو جائیں تاکہ حماس کے کارکن غزہ سٹی میں تنہا رہ جائیں۔
کاتز نے اسرائیلی میڈیا میں جاری بیان میں کہا: ’یہ غزہ کے رہائشیوں کے لیے آخری موقع ہے کہ وہ چاہیں تو جنوب کی طرف منتقل ہو جائیں اور حماس کے کارکنوں کو غزہ شہر میں الگ تھلگ چھوڑ دیں۔ جو لوگ وہاں رہیں گے وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے حامی تصور کیے جائیں گے۔‘
اسی دوران انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC) نے بدھ کے روز کہا کہ غزہ سٹی میں بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں کے باعث انہیں مجبورا اپنی امدادی سرگرمیاں معطل کرنا پڑ رہی ہیں۔ ادارے کے مطابق اس کے عملے کو جنوبی غزہ منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور امدادی کام دوسرے حصوں میں جاری رکھے جا سکیں۔
ریڈ کراس کے بیان میں کہا گیا: ’غزہ سٹی میں فوجی کارروائیوں کی شدت نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم یہاں اپنا دفتر عارضی طور پر بند کر دیں اور عملے کو محفوظ مقامات پر منتقل کر کے آپریشن جاری رکھیں۔ اس وقت ہزاروں لوگ نہایت خوفناک انسانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
گلوبل صمود فلوٹیلا کو اسرائیلی دباؤ کا سامنا
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ بدھ کو غزہ کے قریب امدادی سامان لے کر جانے والے عالمی فلوٹیلا مشن کو اسرائیلی بحری جہازوں نے گھیر لیا اور خطرناک انداز میں روکنے کی کوشش کی۔
’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ نامی اس مشن میں 40 سے زائد سول کشتیوں پر تقریباً 500 افراد سوار ہیں جن میں ارکانِ پارلیمان، وکلا اور سماجی کارکن شامل ہیں۔ ان میں مشہور سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شریک ہیں۔
فلوٹیلا کے منتظمین نے دعویٰ کیا کہ دو اسرائیلی جنگی جہاز اچانک تیزی سے قریب آئے اور دو کشتیوں ’المہ‘ اور ’سیرئیس‘ کو گھیر لیا۔ اسی دوران تمام نیویگیشن اور کمیونیکیشن سسٹم جام ہو گئے جسے منتظمین نے ایک ’سائبر حملہ‘ قرار دیا۔ بعد ازاں کچھ نظام جزوی طور پر بحال کر لیے گئے۔
مشن کے ایک آرگنائزر تیاغو آویلا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’یہ خطرناک کارروائیاں غیر مسلح شہریوں کو، جو 40 سے زیادہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، شدید خطرے میں ڈال رہی ہیں۔‘
فلوٹیلا نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ مہم خوراک اور ادویات کی ترسیل کے لیے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی تازہ کوشش ہے اور وہ کسی رکاوٹ کے باوجود اپنے راستے پر قائم رہیں گے۔ ان کے مطابق فلوٹیلا اس وقت غزہ کے ساحل سے 120 بحری میل کے فاصلے پر ہے اور اگر اسرائیلی افواج نے روکا نہیں تو جمعرات کی صبح وہاں پہنچ جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روئٹرز کے مطابق اس بارے میں اسرائیلی حکام نے فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
امن منصوبہ اور غزہ کی صورتحال
غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے تازہ سلسلے نے ایک بار پھر انسانی بحران کو شدید کر دیا ہے۔ ہسپتالوں کے حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں عام شہری، بچے اور امدادی کارکن شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں بارہا یہ انتباہ کر چکی ہیں کہ شہر کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں محاصرہ اور بمباری کی شدت سے لاکھوں لوگ محصور ہو گئے ہیں۔
وزیر دفاع اسرائیل کاتز کے حالیہ بیان نے اس خدشے کو مزید بڑھا دیا ہے کہ غزہ شہر مکمل طور پر محاصرے میں جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ردعمل بھی بڑھ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور فلوٹیلا جیسے شہری اقدامات واضح کرتے ہیں کہ عالمی برادری میں اسرائیل کے طویل محاصرے کے خلاف مزاحمت موجود ہے۔
’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ کے شرکا کا کہنا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ عام شہریوں کو ادویات اور خوراک فراہم کی جا سکے۔ تاہم اسرائیلی افواج کے اقدامات نے ان خدشات کو بڑھا دیا ہے کہ یہ مہم تشدد میں بدل سکتی ہے۔
بدھ کے روز غزہ کی صورتحال نے ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی ہے۔ ایک طرف اسرائیلی کارروائیوں میں درجنوں جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور انسانی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، تو دوسری طرف بین الاقوامی تنظیمیں اور سماجی کارکن اپنے طور پر امدادی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم اسرائیلی محاصرہ اور فوجی دباؤ ان سب کوششوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔
اس ساری صورتحال کے درمیان یہ سوال برقرار ہے کہ آیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کا ردعمل خطے میں کسی نئے موڑ کا آغاز کرے گا یا پھر تشدد اور محاصرے کا یہ سلسلہ مزید طول پکڑے گا۔