امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو حماس کو ایک الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’تین یا چار دن‘ کے اندر ’اپنی ہی بھلائی کے لیے‘ غزہ میں جنگ ختم کرنے کا ان کا منصوبہ قبول کرے، ورنہ سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
پیر کو پیش کیا گیا ٹرمپ کا منصوبہ، جس کی اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے حمایت کی ہے، غزہ میں جنگ بندی، 72 گھنٹوں کے اندر حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی، فلسطینی عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے اور اسرائیل فوج کے بتدریج انخلا پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد ایک عبوری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جس کی قیادت خود ٹرمپ کریں گے۔
عرب اور مسلم ممالک سمیت عالمی طاقتوں نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا، لیکن حماس نے شرائط کا جائزہ لیتے ہوئے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
منگل کو صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا: ’ہم تقریباً تین یا چار دن کا وقت دیں گے۔‘
بعد ازاں انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے انکار کیا تو اسے سخت نتائج کا سامنا ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ نے ورجینیا کے شہر کوانٹیکو کے ایک فوجی اڈے پر جمع امریکی جرنیلوں اور ایڈمرلز سے خطاب میں کہا: ’ہمیں ایک دستخط کی ضرورت ہے، اور اگر وہ دستخط نہ ہوئے تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔‘
ایک فلسطینی ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ حماس نے مشاورت شروع کر دی ہے اور ’پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ بات چیت کئی دن لے سکتی ہے۔‘
قطر، جو حماس کی جلاوطن قیادت کی میزبانی کرتا ہے، نے کہا کہ وہ منگل کو حماس اور ترکی کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کرے گا۔
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’ابھی ردعمل کے بارے میں بات کرنا جلدی ہوگا، لیکن ہم واقعی پرامید ہیں کہ یہ منصوبہ، جیسا کہ ہم نے کہا، جامع ہے۔‘
پیر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کے بعد واپسی پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ اپنی کابینہ کو ایک ایسے معاہدے پر بریف کریں گے جو ’تمام جنگی مقاصد حاصل کرے گا۔‘
’دردناک اختتام‘
ٹرمپ کی تجویز کا تقاضا ہے کہ حماس کے جنگجو مکمل طور پر غیر مسلح ہوں اور مستقبل میں حکومت میں ان کا کوئی کردار نہ ہو، لیکن جو ’پرامن‘ طریقے سے رہنے پر راضی ہوں گے انہیں عام معافی دی جائے گی۔
اس کے تحت سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد غزہ سے اسرائیلی انخلا مرحلہ وار ہوگا۔
تاہم ٹرمپ کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد ایک ویڈیو بیان میں نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی فوج زیادہ تر غزہ میں رہے گی اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے واشنگٹن میں اپنی بات چیت کے دوران کسی فلسطینی ریاست پر اتفاق نہیں کیا۔
اس کے باوجود، اسرائیل کے دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ، جو نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کا حصہ ہیں، نے اس منصوبے کو ’شکست خوردہ سفارتی ناکامی‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا: ’میرے اندازے کے مطابق اس کا اختتام دردناک ہوگا۔ ہمارے بچے دوبارہ غزہ میں لڑنے پر مجبور ہوں گے۔‘
اے ایف پی کے اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے ہوا تھا، جس میں 1,219 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر شہری تھے۔
جس کے بعد شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے غزہ کے بیشتر حصے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ حماس کے زیرِ انتظام علاقے کی وزارتِ صحت کے مطابق، جسے اقوام متحدہ قابلِ بھروسہ سمجھتی ہے، اسرائیلی حملوں میں اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں بھی زیادہ تر شہری ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے میں ’عارضی بین الاقوامی استحکام فورس‘ کی تعیناتی اور ایک عبوری اتھارٹی کا قیام شامل ہے، جس کی سربراہی خود ٹرمپ کریں گے اور اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔
لیکن ٹرمپ کے ساتھ پریس کانفرنس میں نیتن یاہو نے شکوک کا اظہار کیا کہ آیا فلسطینی اتھارٹی، جس کا عملدرآمد بظاہر مغربی کنارے میں آباد لوگوں پر ہے، کو غزہ کی حکومت میں کوئی کردار دیا جائے گا یا نہیں۔
انہوں نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید خبردار کیا کہ ’اگر حماس نے آپ کا منصوبہ مسترد کر دیا، جناب صدر، یا اگر وہ بظاہر اسے قبول کر لیں اور پھر بنیادی طور پر ہر وہ کام کریں جو اس کے خلاف ہو، تو اسرائیل اکیلا ہی یہ کام مکمل کر لے گا۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ اگر حماس نے معاہدہ قبول نہ کیا تو اسرائیل کو یہ کرنے کے لیے ان کی ’مکمل حمایت‘ حاصل ہوگی۔
اگرچہ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ کی ’خلوص نیت اور پُرعزم کوششوں‘ کا خیرمقدم کیا، تاہم حماس کے اتحادی اسلامی جہاد نے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے خلاف مزید جارحیت کو ہوا دے گا۔
گروپ کا کہنا تھا: ’اس کے ذریعے اسرائیل امریکہ کے توسط سے وہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا۔‘