کراچی میں 20 ستمبر کوایک مین ہول کی صفائی کے دوران دم گھٹنے کی وجہ سے جان سے جانے والے تین سینیٹری ورکرز میں سے ایک 18 سالہ نوجوان وِشال ساحل کی والدہ مریم رقیہ نے کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ حفاظتی انتظامات کے بغیر صفائی کرائی جائے گی تو وہ کبھی اپنے بیٹے کو اس کام کی اجازت نہ دیتیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مرنے والے سینیٹری ورکر وِشال ساحل کی والدہ مریم نے کہا: ’مرنے والا جارج میرے بیٹے ساحل کا سسر تھا۔ رات کے وقت فون آیا کہ بند مین ہول کھولنے ہیں۔
’میرے بیٹے اور ان کے سسر نے جب پانچ مین ہول کھول دیے اور چھٹے مین ہول پر کام کر رہے تھے، تب یہ واقعہ پیش آیا۔
20 ستمبر کی رات کراچی کے علاقے گارڈن کے عثمان آباد میں مین ہول صاف کرتے ہوئے صفائی کے عملے کے تین افراد دم گھٹنے سے جان سے گئے تھے۔
مرنے والوں کی شناخت 18 سالہ وِشال ساحل، 19 سالہ شاہد اور 42 سالہ جارج کے طور پر ہوئی۔
’تینوں جب مین ہول کے اندر گرے تو انہیں بروقت نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا، اس لیے تینوں مین ہول کے اندر دم گھٹنے کے باعث جان سے گئے۔‘
مریم رقیہ نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
والدہ کے مطابق حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے اب تک آٹھ لاکھ روپے دیے گئے، جس میں تدفین کی رقم نکالنے کے بعد ہر ایک کے ورثا کو دو لاکھ 20 ہزار روپے ملے۔
بقول مریم رقیہ: ’میرے دل کے دو وال بند ہیں۔ بیٹا زندہ ہوتا تو علاج کراتا۔ اب بیٹا تو واپس نہیں آسکتا، مگر اگر حکومت معاوضے کی مد میں کچھ رقم دے تو ہماری مالی مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔‘
مرنے والے تینوں سینیٹری ورکرز کے قریبی رشتہ دار رضا مسیح نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ مرنے والوں کے لواحقین شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں اور حکومت سے مالی تعاون کے منتظر ہیں۔
رضا مسیح کے مطابق: ’مرنے والے سینیٹری ورکرز کے خاندان والوں کو صرف دو لاکھ 20 ہزار روپے فی خاندان دیے گئے جو انتہائی کم ہیں۔
’اگر ایک نوجوان کی عمر 18 سال ہے اور وہ 60 سال تک کام کرتا، اور ہر مہینے 37 سے 38 ہزار روپے تنخواہ لیتا تو جتنی رقم بنتی ہے، اتنی رقم خاندان والوں کو دی جائے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوسکیں۔‘
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ڈائریکٹر میڈیا دانیال سیال کے مطابق سینیٹری ورکرز کو مین ہول کی صفائی کے لیے حفاظتی اشیا دی جاتی ہیں، لیکن حادثہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
بقول دانیال سیال: ’یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا۔ اس واقعے کے دوران جان سے جانے والوں کے خاندان کی ابتدائی مالی معاونت کی گئی ہے اور مزید معاونت بھی کی جائے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال سیال نے کہا: ’اس جدید دور میں انسانوں کے بجائے بند مین ہول سیکشن مشین سے کھولنے کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کام کر رہا ہے۔ ’جلد ہی مین ہول کو کھولنے کے لیے پورے شہر کے لیے سیکشن مشینیں خریدی جائیں گی۔‘
سابق رکن پنجاب اسمبلی اور سینیٹری ورکرز کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سوئپرز آر سپر ہیروز‘ کی بانی میری گل کے مطابق سینیٹری ورکرز کو مطلوبہ حفاظتی لباس مہیا نہیں کیا جاتا۔
ان کے مطابق: ’جب ایک ورکر نالے میں بے ہوش ہوجاتا ہے تو ریسکیو کو بلانے کے بجائے دوسرے اور پھر تیسرے ورکر کو نالے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ورکر صفائی کی مہارت رکھتے ہیں، ریسکیو کی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے علاوہ 20 فٹ گہرے نالے سے بھاری بھرکم بے ہوش ورکر کو باہر کھینچنے کے لیے مناسب رسی بھی نہیں دی جاتی، اس لیے اسے باہر نکالنے میں تاخیر ہوتی ہے اور یوں ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔‘
پاکستان میں خاکروبوں کی نالے کی صفائی کے دوران اموات پہلی بار نہیں ہوئیں۔
دسمبر 2015 میں جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں چار سینیٹری ورکرز نالے کی صفائی کے دوران جان سے گئے تھے۔
2017 میں سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں نالے کی صفائی کے دوران چار سینیٹری ورکرز بے ہوش ہوگئے اور جب ان کو علاج کے لیے سول ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر خاکروب کے جسم سے گندگی صاف کیے جانے تک علاج کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے باعث 30 سالہ عرفان علاج نہ ہونے پر فوت ہوگیا۔
3 اکتوبر 2021 کی رات پنجاب کے شہر سرگودھا میں گٹر نالے کی صفائی کے دوران دم گھٹنے سے مرنے والوں میں سرگودھا میونسپل کارپوریشن کے ملازم اور چھ بچوں کے والد 38 سالہ ندیم مسیح بھی شامل تھے۔
رواں سال کراچی میں بھی متعدد واقعات میں صفائی عملے کے ارکان کی اموات ہوئیں۔
جون میں کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں پانچ افراد اسی طرح کے حالات میں زیرِ زمین واٹر ٹینک صاف کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
11 ستمبر کو کراچی کے پورٹ قاسم بندرگاہ پر ایک کمپنی کے زیرِ زمین ٹینک کی صفائی کے دوران زہریلی گیسوں سے متاثر ہوکر دو کارکن جان سے چلے گئے۔