فیصل آباد میں گٹر کا ڈھکن چوری کرنے پر اقدام قتل کا مقدمہ کیوں؟

فیصل آباد میں ایک بچے کے گٹر میں گر کر دم تورنے کے واقعے کے بعد چیف سیکریٹری پنجاب نے ہدایات جاری کیں کہ مین ہولز کے ڈھکن چوری کرنے والوں کے خلاف اقدام قتل کے مقدمات درج کروائے جائیں۔

فیصل آباد کے نواحی علاقے تلیانوالہ کے قریب گذشتہ ماہ ایک آٹھ سالہ بچہ صداقت علی سکول سے واپس آتے ہوئے سیوریج کے کھلے مین ہول میں گر کر دم توڑ گیا تھا جس کے بعد وہاں مین ہول کے ڈھکنے چرانے والوں کے خلاف قتل کے مقدمات قائم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

بچے کے مین ہول میں گرنے کا واقعہ رواں سال 15 جنوری کو پیش آیا تھا۔ حادثے میں جان سے جانے والے بچے کے والد بابر ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صداقت علی ان کا بڑا بیٹا تھا اور جب انہیں اس حادثے کی اطلاع ملی تو وہ اپنے چھوٹے بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ گھر کے دروازے پر اس کا انتظار کر رہے تھے۔

’بچہ گرا تو ہم نے واسا اور ریسکیو والوں کو بلایا۔ وہ کوشش کرتے رہے مگر شام کو سب کوششوں کے بعد میت ملی۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس حادثے کے بعد جب وہ دیگر بچوں کو سکول سے واپس آتے دیکھتے ہیں تو ان کا  اپنے بیٹے کے بچھڑ جانے کا غم تازہ ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حادثے کے بعد انہوں نے گھر میں موجود اپنے بیٹے کی تصاویر اور سکول بیگ اپنی بیوی سے چھپا کر رکھ دیا ہے کیوں کہ وہ ان چیزوں کو دیکھ کر اس کی دردناک موت کو یاد کر کے روتی رہتی ہیں۔

حادثے کا چیف سیکریٹری پنجاب کامران علی افضل نے نوٹس لیتے ہوئے صوبے بھر کے تمام  کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسٹنٹ کمشنرز، محکمہ واسا کے منیجنگ ڈائریکٹرز اور مقامی حکومتوں کے چیف افسران کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ سیوریج لائنوں کے مین ہولز کے ڈھکنے چوری کرنے والوں کے خلاف اقدام قتل کے مقدمات درج کروائے جائیں۔

اس کے علاوہ چیف سیکریٹری کی طرف سے کھلے مین ہولز پر فوری طور پر ڈھکنے لگانے کے بھی احکامات جاری کیے گئے تھے۔

اس حوالے سے واسا فیصل آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد امین ڈوگر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران واسا کو 136 کے قریب سیوریج لائنوں کے  مین ہولز کے ڈھکنے چوری ہونے کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد ان پر دوبارہ کور لگا دیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک مین ہولز کے کور چوری ہونے کے نو واقعات کے مقدمات درج کروانے کے لیے مختلف تھانوں میں درخواستیں دی جا چکی ہیں جبکہ ایک ایف آئی آر درج کر کے دو ملزمان کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

امین ڈوگر کے مطابق ’پہلے تو چوری کی دفعہ لگتی تھی، اب ایم ڈی نے لیگل ایڈوائرزر کو کہا ہے کہ اس میں اقدام قتل کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس سے لوگوں میں خوف پیدا ہو گا کہ مین ہولز کے کور چوری کرنے پر اقدام قتل کی دفعہ لگتی ہے تو وہ یہ کام کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

امین ڈوگر کے مطابق ’پہلے تو عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کور اٹھا کر لے گئے بازار میں جاکر فروخت کر دیا لیکن اب ہم کباڑ کی خرید و فروخت کرنے والوں کو بھی اس بارے میں آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ اس میں ملوث ہوئے تو ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ہائیکورٹ کے سینیئر وکیل امتیاز احمد وینس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مین ہولز کے کور چوری کرنے پر اقدام قتل کے مقدمات کا اندراج کرنے کے احکامات جاری کر کے چیف سیکریٹری نے مناسب اقدام نہیں کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’قتل کرنے کی حد بہت آگے کی حد ہوتی ہے کیوں کہ جب کوئی قتل ہوتا ہے تو اس کے پیچھے وجہ عناد ہوتی ہے، اب وجہ عناد جب آتی ہے تو پہلے وجہ عناد ثابت کرنی  ہوتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اقدام قتل کی دفعہ 324 پی پی سی میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کیا کسی نے کوئی ایسا عمل کیا ہے کہ جس سے کسی فرد کی جان کو شدید خطرہ تھا اور اس نیت سے اس پر حملہ کیا گیا ہو۔

ان کے مطابق: ’اب جہاں تک گٹر کے ڈھکنے کی بات ہے، یہ کس نے لگانے ہیں، ڈھکن کسی عام آدمی نے نہیں لگانے ہیں، یہ حکومت کے ایک ادارے نے لگانے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر سیوریج کے مین ہولز پر ڈھکن لگانے کا ذمہ دار ادارہ ایسا نہیں کرتا تو یہ اس کی ’غفلت‘ ہے، اس پر کسی کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ نہیں بنتا ہے۔

کھلے مین ہول میں گر کر دم توڑنے والے صداقت علی کے والد بابر ندیم بھی حکومت کے اس اقدام کو ’غیر ضروری‘ قرار دیتے ہیں۔

بابر ندیم کے مطابق: ’گٹر کا ڈھکن چوری کرنے پر قتل کے مقدمے کا اندراج روایتی بات ہے اس پر عمل ہونے کی گنجائش نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ حادثے کے بعد مقامی ایم پی اے، واسا حکام اور پولیس نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کسی کے خلاف کیس کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے یہی جواب دیا تھا کہ جو غفلت ہوئی ہے آئندہ نہیں ہونی چاہیے۔

جان سے جانے والے بچے کے والد نے کہا تھا کہ ’بس میری ایک ہی التجا ہے کہ ہر گٹر کے اوپر خصوصاً جو بڑے گٹر ہیں جہاں بالکل نظر آرہا ہوتا ہے کہ اس میں جو بچہ یا بندہ گرے گا اس کے بچنے کا امکان کم ہے، وہاں ایسا سسٹم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی گرے تو اس کی جان بچ جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہے تو کیا نہیں کرسکتی کیوں کہ اس کے پاس وہ وسائل اور افرادی قوت موجود ہے جو کسی عام انسان کے بس میں نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا