پشتونوں کے ایک گھر کے کونے میں مٹی سے بنے روایتی تندور کے آس پاس خواتین جمع ہیں اور ایک ایک کر کے تندور سے روٹیاں نکال رہی ہیں۔
آس پاس کچھ خواتین تمبل (دف) بجا رہی ہیں، مرد اور خواجہ سرا تالیاں اور پشتو کے روایتی ٹپے گا رہے ہیں۔
تندور سے ساری روٹیاں نکالے جانے کے بعد انہیں ایک چادر میں لپیٹ کر طشت میں رکھا جاتا ہے۔
ایک خاتون روٹیوں سے بھرا ٹرے اٹھائے آگے جا رہی ہیں، جب کہ دوسری عورتیں ان کے پیچھے دف کی گونج اور روایتی ٹپوں کے ساتھ گھر کے لان کی طرف جاتی ہیں، جہاں روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے (چُور چُور) کر کے ’چُوری‘ بنائی جاتی ہے۔
یہ منظر پشتونوں کی صدیوں پرانی روایتی رسم ’چوری‘ کا ہے، جسے پشاور میں ’مفکورہ‘ نامی تنظیم نے زندہ رکھنے کے لیے ایسی ہی ایک تقریب کا اہتمام کیا۔
اس رسم کا نام ’چوری‘ دراصل ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ اس میں گندم سے بنی روٹی کو توڑ کر اس میں خشک میوہ جات ملا کر ایک طرح کا پاؤڈر بنایا جاتا ہے، جو بعد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
مفکورہ سے وابستہ وگمہ فیروز نے اس روایتی رسم کے احیا کے لیے اس تقریب کا اہتمام کیا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس رسم کے پیچھے ایک بنیادی مقصد ہے اور اسے رواں ماہ منعقد کرنے کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔
’اس وقت جو مہینہ جاری ہے وہ پشتو کلینڈر میں ’خویندوں کا مہینہ‘ (بہنوں کا مہینہ) کہلاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ ہجری اور دیگر کیلنڈروں کے علاوہ پشتونوں کا اپنا ایک قمری کلینڈر بھی ہے، جس میں ہر مہینے کو پشتو زبان کا مخصوص نام دیا گیا ہے۔
وگمہ فیروز کے مطابق پشتو میں رواں مہینے کو بہنوں کا مہینہ کہا جاتا ہے، جو قمری مہینوں کے مطابق سپر (صفر) کا مہینہ ہوتا ہے اور اس رسم میں شادی شدہ لڑکی کے گھر ان کے والدین اور بہنیں ’چوری‘ بنا کر بھیجا کرتے تھے۔
انہوں نے بتایاکہ ’شادی شدہ لڑکی کے والدین کے گھر میں اس کی بہنیں جمع ہو کر چوری بناتی تھیں اور پھر اسے اس بہن کے سسرال بھیجا جاتا تھا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ شادی شدہ بہن کی یادیں تازہ رہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وگمہ فیروز نے مزید بتایا کہ شادی شدہ لڑکیوں کے علاوہ جن لڑکیوں کی منگنی ہو چکی ہوتی ہے، ان کے گھر والے بھی اسی مہینے میں سسرال کے لیے چوری اور دیگر تحائف جیسے کپڑے وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا، ’ایسی رسمیں ہماری ثقافت کا حصہ تھیں، لیکن جدید دور میں یہ معدوم ہو چکی ہیں۔ اس تقریب کا مقصد یہی تھا کہ لوگوں کو یہ روایات دوبارہ دکھائی جا سکیں۔‘
تقریب میں مرد، خواتین اور خواجہ سرا سب کو مدعو کیا گیا اور وگمہ کے مطابق اس کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ پشتون معاشرے میں ایسی خوبصورت روایات بھی موجود ہیں، جو وقت کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
شیر عالم شینواری، جو پشتون ثقافت پر مختلف جریدوں میں لکھتے ہیں، کے مطابق ’چوری‘ کی رسم دراصل پشتو کے قدیم کیلنڈر کے مہینے سپر میں انجام دی جانے والی ایک اہم روایت ہوا کرتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس مہینے کو ’خوگہ خور‘ (پیاری بہن) بھی کہا جاتا تھا اور اسے رشتوں کو مضبوط کرنے اور ملنے جلنے کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔
شیر عالم کے مطابق، ’اسی مہینے میں شادی شدہ لڑکیاں والدین کے گھر آیا کرتی تھیں، جبکہ واپسی پر ان کے لیے میٹھی روٹی اور ڈرائی فروٹ سے چوری بنائی جاتی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس زمانے میں بہن اور بیٹی کے رشتے کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور یہ رسم اسی پیار و محبت کا ایک اظہار تھی، جس میں شادی شدہ بیٹی کے والدین اس کے ساتھ خوشیاں بانٹا کرتے تھے۔
تاہم، شیر عالم شینواری کے مطابق: ’یہ مہینہ توہمات سے بھی منسوب تھا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ مہینہ نیک شگون نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی برائی یا مصیبت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا، ’اسی وجہ سے بہنیں والدین کے گھر جا کر محبتیں بانٹتی تھیں تاکہ اس مہینے کے منفی تاثر کو ختم کیا جا سکے اور رشتوں میں دوری نہ پیدا ہو۔‘