پشتون قوم کے لیے الگ صوبے کا مطالبہ جو 1960 کی دہائی میں کیا گیا تھا، اب ایک مرتبہ پھر مختلف وجوہات اور حالات کے پس منظر میں پاکستان کے سیاسی افق پر گونجنے لگا ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) سے حال ہی میں نکالے جانے والے اراکین نے اس پارٹی پر قبضے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اس کا ولی وارث قرار دیا ہے۔ یہ پارٹی تاریخی لحاظ سے پشتونوں کے الگ صوبے کا مطالبہ ماضی میں بھی کرتی آئی ہے۔
دوسری جانب انہی اراکین نے بلوچستان کے پشتون اکثریتی، علاقوں صوبہ خیبرپختونخوا، اٹک اور میانوالی تک پشتونخوا کے نام پر ایک نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
محمود خان اچکزئی سے علیحدگی اختیار کرنے والے پی کے میپ کے ان اراکین نے 27 دسمبر 2022 کو اپنی پارٹی کے لیے خوشحال کاکڑ کو سربراہ منتخب کیا ہے جو بلوچستان کے مرحوم سینیٹر عثمان کاکڑ کے صاحبزادے ہیں۔ جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے مختار خان یوسفزئی کو نائب چیئرمین منتخب کیا گیا ہے۔
31 دسمبر 2022 کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی پانچویں نیشنل کانگریس میں چند قراردادوں کی منظوری دی گئی، جس میں سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی اصل وجہ معلوم کرنے کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں، فوج، سرکاری اداروں اور پارلیمنٹ میں تمام پاکستانی قومیتوں کو یکساں نمائندگی، افغانستان میں آئین کے نفاذ کے لیے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے مداخلت کی اپیل اور نئے مجوزہ پشتونخوا صوبے میں پشتو بحیثیت سرکاری وتدریسی زبان کا اطلاق اور اس کے علاوہ علاقے کے قدرتی وسائل پرصوبے کی عوام کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پشتونخوا صوبے کا یہ نیا مطالبہ 60 اور 70 کی دہائی میں اٹھنے والے پشتونستان کے مطالبے سے کتنا مختلف ہے، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پی کے میپ کے نئے نائب چیئرمین مختار خان یوسفزئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی پوری زندگی پشتونوں کے لیے ایک الگ صوبے کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کو اسی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔
’بعد ازاں کئی دیگر اراکین کو شہید کردیا گیا جن میں عثمان کاکڑ بھی شامل ہیں۔ چترال سے بولان تک، بلوچستان کے 14 پشتون اکثریتی اضلاع، صوبہ خیبرپختونخوا، اٹک اور میانوالی تک پشتونخوا صوبے کا قیام ہمارا دائمی مطالبہ رہا ہے۔ البتہ افغانستان چونکہ ایک آزاد اور علیحدہ ملک ہے، اس مطالبے کا حصہ نہیں ہے۔‘
یوسفزئی نے کہا کہ اب نئے اراکین پی کے میپ کے اصل وارث ہیں، اور الگ صوبے کا مطالبہ وہ ہمیشہ ہر فورم پر اٹھاتے آ رہے ہیں، اور آئندہ بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مختار یوسفزئی سے سوال کیا کہ آیا ان کے اس مطالبے پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام میں اتفاق رائے موجود ہے، تو انہوں نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام پشتونوں کے مفاد کا مطالبہ ہے اور وہ اس معاملے پر ضرور متفق ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ نئے صوبے کے لیے ان کی سیاسی جماعت پہلے سے ایک باقاعدہ منصوبہ اور نیٹ ورک تشکیل دے چکی ہے اور اب صرف منظوری کا انتظار ہے۔
ماضی میں خان عبدالولی خان کی سربراہی میں پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے بلوچستان کے قلات ریاستی علاقوں اور پشتون اکثریتی علاقوں کو ملا کر ایک بلوچستان کی حیثیت پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ عبدالصمد خان اچکزئی جو اس وقت نیشنل عوامی پارٹی میں شامل تھے، نے ناراض ہوکراپنی نئی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
نئے صوبے کے موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا موقف جاننے کی کوشش کی، تو اے این پی کے رکن صوبائی اسمبلی اور قائد حزب اختلاف سردار حسین بابک نے کہا کہ پشتون علاقوں کی ایک حیثیت ان کی جماعت کا بھی دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔
’قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد ہمارے قائدین کی یہ تجویز رہی ہے کہ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں کو بھی ساتھ ملانے کے لیے کام ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ہمارا موقف بہت واضح ہے، کہ تمام پختون علاقے ایک حیثیت اختیار کر لیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق چیئرمین اور سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر سرفراز خان کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں نئے صوبے کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ وقتوں میں پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ، کراچی میں آباد مہاجروں کی جانب سے صوبہ کراچی کا مطالبہ اور خیبرپختونخوا میں صوبہ ہزارہ کا مطالبہ بھی ہوتا رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے اس موضوع پر گفتگو میں پروفیسر سرفراز نے بتایا کہ ’اگر صوبوں کی تقسیم کی بات ازسرنو شروع ہوئی اور اس پر عمل درآمد کی بات آئی تو پشتونخوا صوبہ بھی بن سکتا ہے اور اس کا نظم ونسق سنبھالنا بھی کوئی مشکل نہ ہو گا۔ اس طرح ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ لیا جا سکتا ہے، جیسے بلوچستان کے پاس پانی نہیں اورخیبرپختونخوا کے پاس وافر پانی ہے، جبکہ بلوچستان کے پاس قدرتی وسائل ہیں۔‘
پاکستان میں پشتونستان یا پشتونخوا کا موضوع متنازع رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ 1960 کی دہائی میں اس وقت کے افغان وزیراعظم محمد داؤد خان تھے جن کی یہ کوشش تھی کہ ڈیورنڈ لائن کی حیثیت ختم کرکے پشتونستان کے نام پر پاکستان کے پشتون اکثریتی علاقوں کو افغانستان کے ساتھ ملا لیں۔
افغان فوج کو پاکستانی سرزمین پرشکست کے بعد یہ معاملہ کسی حد تک دب گیا لیکن 1973 میں داؤد خان کے ہاتھوں افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت گرنے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اجمل خٹک نے ایک مرتبہ پھر پختونستان یا پشتونستان بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاہم اے این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا حالیہ مطالبہ پشتونستان نہیں بلکہ پاکستان میں موجود پشتون اکثریتی علاقوں کو ملا کر ایک صوبے کی حیثیت دینا ہے۔