جنگلات کی کٹائی اور تیندووں کے حملے

جنگلات اور جنگلی حیات قدرت کا انمول تحفہ ہیں اور انہیں محفوظ رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور نسلوں کی بقا کے لیے شرط بھی۔ 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے محکمہ جنگلی حیات کا ایک ملازم 22 جنوری، 2022 کو نیلم ویلی میں زخمی تیندوے کو منتقل کر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع جہلم ویلی کے ایک گاؤں میں ایک بچی کو تیندوا اٹھا کر لے گیا۔ اگلے روز اس کے جنازے سے واپسی پر ایک لڑکے پر تیندوے نے حملہ کر دیا۔ 

لڑکے کے شور نے دیگر گاؤں والوں کی توجہ حاصل کی۔ وہ اس جگہ پہنچے اور تیندوا بھاگ گیا۔ 

محکمہ وائلڈ لائف اینڈ فشریز کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالشکور خان کا کہنا ہے کہ گلدار (تیندوا) عام طور پر انسانوں پر حملہ نہیں کرتا۔ 

ان کی 18 برس کی سروس کے دوران یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی تیندوے نے انسان پر حملہ کیا ہو۔ تو پھر ایسا کیا ہوا؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اپنے گھنے پہاڑی جنگلات کی وجہ سے مشہور رہا ہے، مگر گذشتہ 50 برسوں میں یہاں جنگلات کی مجموعی مقدار اور رقبہ تشویش ناک حد تک گھٹ گیا ہے۔ 

ماہرین کے مطابق 1970 کی دہائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کل رقبے کا تخمینی طور پر 40 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا جو پچھلی نصف صدی کے دوران سکڑ کر صرف 11 فیصد رہ گیا ہے۔ 

اعداد و شمار کے مطابق 2000 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تقریباً 45.9 فیصد رقبے پر جنگل موجود تھا جو 2020 تک گھٹ کر 39.3 فیصد رہ گیا۔

یہ تیزی سے ہونے والی کمی خاص طور پر 2000 سے 2010 کے درمیان زیادہ رہی، جب 2005 کے تباہ کن زلزلے اور اس کے بعد تعمیرِ نو کے باعث درخت بڑے پیمانے پر کاٹے گئے۔ 

اگرچہ بعد کے برسوں میں حکومت نے شجرکاری اور پابندیوں کے ذریعے اس رفتار کو کسی حد تک کم کیا، لیکن جنگلات کی کٹائی اب بھی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تقریباً 42 فیصد رقبے کو قانونی طور پر جنگلاتی زمین قرار دیا گیا ہے۔

تاہم یہاں کے محکمہ ماحولیات و تحفظ کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ریاست میں گھنے جنگلات صرف 9.6 فیصد رقبے تک محدود رہ گئے ہیں جبکہ باقی 11.4 فیصد رقبہ کم گھنے جنگلات یا جھاڑیوں پر مشتمل ہے۔ 

یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قانونی طور پر محفوظ جنگلاتی علاقوں کا بڑا حصہ عملی طور پر یا تو تلف ہوچکا ہے یا شدید دباؤ کا شکار ہے۔

کشمیر کے جنگلات صرف درختوں کا مجموعہ نہیں تھے بلکہ یہ بےشمار جنگلی جانوروں اور پرندوں کا گھر تھے۔ 

گذشتہ 50 سال میں جیسے جیسے جنگلات کم ہوئے، ویسے ویسے کئی جانور اور پرندے یا تو یہاں سے ختم ہو گئے یا خطرے سے دوچار ہیں۔ 

مسکن کے ختم ہونے اور شکار یا انسانی مداخلت نے مل کر حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچایا ہے۔

ان جنگلات میں ایشیائی تیندوے کی آبادی ہوا کرتی تھی۔ جنگلات سکڑنے سے تیندوے کے شکار کے رقبے کم ہو گئے اور وہ خوراک کی تلاش میں بستیوں کا رخ کرنے لگے۔ 

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہاتیوں کے مویشی یا خود انسان ان کا شکار بنے اور جواباً لوگوں نے تیندوؤں کو مارنا شروع کر دیا۔ 

گذشتہ چند برس میں درجنوں تیندوے مقامی لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ سلسلہ خطرناک ہے کیونکہ ایک جانب تیندوے کی آبادی ختم ہو رہی ہے اور دوسری جانب انسانوں کا جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنگلات اپنی اصل حالت میں ہوتے تو تیندوے انسانوں کے اتنے قریب نہ آتے۔

دوسری جانب ہرنوں کی مقامی نسل ہانگل ہرن ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ جنگلات اور چراگاہوں کا ختم ہونا اور شکار ہے۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق 1990 کی دہائی کے بعد سے کشمیر میں ہانگل ہرن کی کوئی تصدیق شدہ موجودگی سامنے نہیں آئی اور یہ نسل یہاں تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

ہانگل کبھی موسمی ہجرت کرکے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنگلوں میں آتے تھے، مگر سرحد پر باڑ اور مسلسل انسانی دخل اندازی کے باعث وہ راستے بند ہو گئے۔ 

اسی طرح مشکی ہرن اور مارخور وغیرہ بھی جنگل کے رقبے میں کمی کی وجہ سے محدود مقام پر رہ گئے ہیں اور ان کی آبادی پہلے جیسی نہیں رہی۔ 

مارخور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں صرف چند انتہائی دور دراز چٹانی علاقوں میں رہ گیا ہے۔

ہمالیائی بھورا ریچھ اور کالے ریچھ کبھی جنگلات میں پائے جاتے تھے۔ یہ بڑے جانور رہنے کے لیے گھنے جنگل اور انسان سے دور علاقوں کو پسند کرتے ہیں۔ 

لیکن جنگلات کٹنے اور انسان کا پھیلاؤ بڑھنے سے ریچھوں کا مسکن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھورے ریچھ اب صرف چند محفوظ علاقوں تک محدود ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ 

کالے ریچھ کا بھی یہی حال ہے۔ ریچھ کبھی کبھار آبادی کے نزدیک شہد یا فصلوں کی تلاش میں آ جاتے ہیں اور اکثر مارے جاتے ہیں۔ ان کے لیے بڑے محفوظ جنگلات کا باقی نہ رہنا ایک بڑا خطرہ ہے۔

اسی طرح یہ جنگلات دلکش اور نایاب پرندوں کا گھر تھے۔ مغربی ٹراگوپین جیسے نایاب تیتر صرف کشمیر کے مخصوص جنگلات میں پائے جاتے تھے۔ 

جنگل کٹنے سے ان کی آبادی کو خطرہ لاحق ہوا ہے کیونکہ یہ پرندہ گھنے بلوط اور دیودار کے جنگل کا محتاج ہے۔ مونال (مرغِ زریں)، کستوری تیتر (کالو جنگلی تیتر) اور چیر تیتر جیسی رنگ برنگی پہاڑی طیور بھی اب پہلے کی نسبت کم دکھائی دیتے ہیں۔ 

ایک عالمی مطالعے میں خبردار کیا گیا ہے کہ تیز رفتاری سے عالمی جنگلاتی کے کٹاؤ کے باعث دنیا کے 70 فیصد پرندوں کو خطرات لاحق ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ کشمیر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

مختصراً، جنگلات کی کٹائی نے کشمیر کی جنگلی حیات کو رہائش کی کمی، خوراک کی قلت، اور انسانی تنازعات جیسے مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ 

جنگلی جانور یا تو معدوم ہو رہے ہیں یا انسانی بستیوں کے نزدیک آنے پر مجبور ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ 

جنگلی حیات کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کچے جنگلات کی سختی سے حفاظت کی جائے اور نئے جنگلات اُگائے جائیں۔ ساتھ ہی مقامی برادری کی آگاہی اور شمولیت بھی لازمی ہے تاکہ وہ جنگلی جانوروں کو اثاثہ سمجھیں نہ کہ دشمن۔

کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات نے بعض جگہوں پر کمیونٹی بیسڈ کنزرویشن پروگرام شروع کیے ہیں جس میں مقامی افراد کو جنگلی جانوروں خصوصاً تیندوے اور ریچھ سے بچاؤ کے طریقوں کی تربیت اور معاوضہ سکیمیں شامل ہیں تاکہ وہ ان جانوروں کو مارنے کی بجائے محفوظ طریقے سے دور بھگائیں۔ 

اس قسم کے اقدامات جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ دونوں کے لیے ناگزیر ہیں۔

ایک طرف اگر جنگلات کی کٹائی کی جا رہی ہے تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول مسلسل عسکری کشیدگی کا شکار رہی ہے جہاں آر پار جنگلات اور پہاڑ واقع ہیں جو گذشتہ کئی دہائیوں سے توپوں کی گھن گھرج اور گولیوں کی آوازیں سنتے آئے ہیں۔ 

عسکری جھڑپوں اور فوجی سرگرمیوں نے جنگلات اور جنگلی حیات پر پیچیدہ اور سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ 

ماہرین ماحولیات اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیر کا تنازع محض سیاسی یا انسانی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک گہرا ماحولیاتی بحران بھی ہے۔

1980 کی دہائی سے لے کر 2000 کی دہائی تک، خاص کر 1990 کے بعد، کشمیر میں مسلح تنازع اپنے عروج پر تھا۔ 

اس دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی جنگلات کو بہت نقصان پہنچا۔ 

انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ خار دار تاروں کی باڑ لگانا شروع کی۔ اس باڑ اور اس کے ساتھ بارودی سرنگوں کی پٹی نے جنگلی حیات کی آزادانہ نقل و حرکت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔

جنگلی جانور جیسے ہرن، ریچھ یا تیندوے جو موسموں کے حساب سے ایک وادی سے دوسری وادی آتے جاتے تھے، اب باڑ میں پھنس کر مارے جاتے ہیں یا ایک طرف محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ 

رپورٹس کے مطابق لائن آف کنٹرول پر باڑ نے جنگلی جانوروں کے قدرتی راستے کاٹ دیے ہیں اور ان کے علاقے محدود کر دیے ہیں۔ 

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف کئی جانور اپنی نسل بڑھانے کے لیے درکار متنوع جینیاتی امتزاج سے محروم ہو گئے اور دوسری طرف خوراک/پانی کی تلاش میں باڑ کے پار نہ جا سکنے کے سبب کچھ جانور علاقے میں ہی فنا ہو گئے۔

ان تمام عوامل کے باوجود، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لائن آف کنٹرول کا علاقہ عام شہری کی پہنچ سے دور رہنے کے باعث کچھ جگہوں پر محفوظ جنگلی پناہ گاہ کا کردار بھی ادا کرتا رہا ہے۔ 

دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے کہ متنازع سرحدیں اکثر جنگلی حیات کے لیے انسان سے خالی حفاظتی علاقہ بن جاتی ہیں جیسے کوریا کا ڈی ملیٹرائزڈ زون ایک محفوظ جنگلی مسکن ہے۔

کشمیر میں بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں انسانی عدم موجودگی کے باعث کچھ جانور پھل پھول گئے ہیں کیونکہ انسان وہاں شکار یا دراندازی نہیں کر سکا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر مجموعی طور پر کشمیر کے تنازعے نے ماحولیات اور جنگلات کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

گذشتہ 50 برسوں میں پاکستانی کشمیر کے جنگلات میں مجموعی طور پر تیز زوال دیکھا گیا ہے۔ قانونی تحفظاتی دعوؤں اور عوامی شعور کے باوجود جنگلات کی کٹائی نے اس خطے کے سرسبز پہاڑوں کو داغ دار کیا ہے۔ 

نتیجتاً بہت سی جنگلی انواع اپنی رہائش گاہیں کھو کر یا تو خطے سے ختم ہو چکی ہیں یا شدید خطرے سے دوچار ہیں۔

تاہم صورتحال کو بالکل مایوس کن قرار دینا بھی درست نہ ہوگا۔ حالیہ برسوں میں اٹھائے گئے اقدامات کچھ امید دلاتے ہیں۔ 

کشمیر حکومت نے 2000 کی دہائی میں سبز درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کی، جنگلات کو دوبارہ اگانے کے کئی منصوبے شروع کیے اور مقامی لوگوں کو متبادل ایندھن مثلاً ایل پی جی سلنڈر رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

ایک حالیہ جائزے کے مطابق 1999 سے 2018 کے دوران مناسب پالیسیوں کے باعث پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بعض علاقوں میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ درست سمت میں اٹھائے گئے اقدامات اثر دکھا سکتے ہیں۔ 

مزید یہ کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تین نیشنل پارک -- مچیارہ، گموتی، بنجوسہ -- اور متعدد گیم ریزروز قائم کیے گئے ہیں جہاں درختوں اور حیوانات کی بقا کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جس میں جنگلات کا پائیدار انتظام، مقامی آبادی کو متبادل معاش اور ایندھن کی فراہمی، کڑی قانون سازی اور انسدادِ غیرقانونی کٹائی کا نفاذ اور سرحدی علاقوں میں ماحولیاتی تعاون جیسے عناصر شامل ہوں۔ 

کشمیر کے جنگلات صرف اس علاقے کے باسیوں کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے موسمیاتی توازن اور قدرتی حسن کے لیے اہم ہیں – دریاؤں کا پانی انہی جنگلات سے فلٹر ہو کر آتا ہے، مون سون بارشوں کو روک کر زمین میں جذب کرنے کا کام یہی پہاڑ کرتے ہیں، اور بلاشبہ کشمیر کی خوبصورتی کا بڑا راز بھی اس کے جنگلات ہی ہیں۔ لہٰذا جنگلات کی حفاظت ایک قومی فریضہ ہونا چاہیے۔

جنگلات کی کٹائی کی نصف صدی پر محیط کہانی تنبیہ ہے اور رہنمائی بھی۔

تنبیہ اس لیے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلی نصف صدی میں شاید یہاں کے پہاڑ خالی اور ویران ہو جائیں، اور رہنمائی یوں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ابھی بھی وقت ہے کہ مربوط اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے اس جنت نظیر خطے کو دوبارہ سرسبز و شاداب بنایا جا سکتا ہے۔ 

جنگلات اور جنگلی حیات قدرت کا انمول تحفہ ہیں اور انہیں محفوظ رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور نسلوں کی بقا کے لیے شرط بھی۔ 

حکومت اور عوام کے باہمی تعاون سے ’سبز اور خوشحال کشمیر‘  کا خواب پھر سے حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات