بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے اپنے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائی کے نتیجے میں سوسائٹی کی سروسز بند کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے تسلی دی کہ ’بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔‘
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کو کسی قسم کا خطرہ نہیں، ان کے حقوق محفوظ ہیں، یہ کارروائی صرف ملک ریاض، بحریہ ٹاؤن کے اہلکاروں اور خاندان کے ان افراد کے خلاف ہے جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘
بحریہ ٹاؤن میں سکیورٹی کی سروسز سے لے کر بجلی کی سہولت بھی بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے ذمے تھی جس کی وجہ سے سوسائٹی میں بجلی کی فراہمی بھی معطل نہیں ہوتی تھی۔
چیئرمین بحریہ ٹاؤن ملک ریاض نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم اپنے عملے کی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ہم پاکستان بھر میں بحریہ ٹاؤن کی تمام سرگرمیاں مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ آخری قدم ہو گا۔‘
بحریہ ٹاؤن میں سہولیات
رہائشی سارہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ چند مہینوں سے بحریہ ٹاؤن کی سروسز پہلے جیسے نہیں رہی۔ یہاں رہنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ معیار زندگی بہتر ہے صفائی اور سکیورٹی بھی ہے، لیکن اب سکیورٹی بھی برائے نام ہے۔ کچرا بھی 15، 15 دن گزر جاتے ہیں اٹھانے نہیں آتے۔
’پانی کا بھی بحریہ ٹاؤن میں اب بہت مسئلہ ہے۔ اور جہاں تک بجلی کی بات ہے تو بحریہ کے اپنے گرڈ سٹیشن ہیں لیکن وہ رہائشیوں کو حکومتی بجلی کے مقابلے میں بجلی مہنگی دیتے ہیں کیونکہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔‘
فیکٹ چیک: کیا بحریہ ٹاؤن راولپنڈی انتظامیہ نے اپنے رہائشیوں کو سہولیات کی فراہمی روک دی ہیں؟
— Independent Urdu (@indyurdu) August 7, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/6QF05JKwgT pic.twitter.com/AvqHoP1vpA
انہوں نے کہا کہ ’باقی سوسائٹیز اور بحریہ ٹاؤن میں فرق گرڈ سٹیشن کا ہے، ورنہ صفائی پانی اور سکیورٹی تو باقی سوسائٹیز میں بھی ہے، لیکن یہاں بجلی کی بلاتعطل فراہمی اس سوسائٹی کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔‘
اگر تمام سروسز سے سبکدوشی ہوتی ہے تو اب رہائشیوں کو کن حالات کاسامنا کرنا ہو گا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ و ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
بحریہ کے میڈیا ونگ نے بات نہیں کی کیونکہ بہت سے لوگ جو بحریہ سے منسوب تھے وہ روپوش ہیں۔
ایک سابق انتظامی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بحریہ کی جائیداد کا لین دین کا آپریشن متاثر ہو گا اور مارکیٹنگ کی سروسز تعطل کا شکار ہوں گی لیکن جہاں تک بات سوسائٹی میں لوگوں کو ملنے والی بنیادی سروسز کی ہے وہ جاری رہیں گی وہ شعبہ ہی الگ ہے وہ رک نہیں سکتا ورنہ لاکھوں لوگ جو بحریہ رہتے ہیں وہ سڑکوں پر آ جائیں گے۔
’دوسری بات یہ کہ بجلی بحریہ ٹاؤن آئیسکو سے ہی خریدتا ہے لیکن سوسائٹی میں تقسیم خود کرتا ہے۔ جس دوران لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اس دوران ہم جنریٹر سے پوری سوسائٹی کو بجلی فراہم کرتے ہیں اس لیے ہماری بجلی حکومتی ریٹ سے مہنگی ہوتی ہے کیونک ہم آئیسکو کو سارا بل خود ادا کرتے ہیں۔‘
بحریہ ٹاؤن کا سپریم کورٹ سے رجوع
بحریہ ٹاؤن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا اور استدعا کی کہ بحریہ کے اثاثوں کی نیلامی روکی جائے۔ ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے اپیل دائر کی ہے درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’نیلامی کا نوٹس ’غیر قانونی، دھوکہ دہی پر مبنی اور بد نیتی کے ساتھ جاری کیا گیا۔ بحریہ ٹاؤن نہ تو کسی پلی بارگین کا حصہ تھا اور نہ ہی برطانیہ سے شروع ہونے والے کیس سے متعلق کسی ریفرنس میں بطور ملزم نامزد کیا گیا تھا۔‘
ملک ریاض کا بیان
ملک ریاض نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کی جانب سے حالیہ چند ماہ میں مختلف کارروائیوں کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کا آپریشن شدید متاثر ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں کمپنی کی مالی حالت بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کے خلاف حکومتی اداروں کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں کمپنی کے بینک اکاؤنٹس کی منجمدی، عملے کی گاڑیوں کی ضبطی، اور درجنوں اسٹاف ارکان کی گرفتاری شامل ہیں۔ اس دباؤ کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کی رقوم کی روانی تباہ ہو چکی ہے اور روزمرہ سروسز فراہم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔‘
ایف آئی اے نے بحریہ ٹاؤن کرپشن کیس میں ایک ارب 12 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید شواہد حاصل کر لیے
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے بریفنگ میں کہا ہے کہ ’ایف آئی اے نے بحریہ ٹائون کرپشن کیس میں ایک ارب 12 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید شواہد حاصل کر لیے ہیں، سفاری ہسپتال کو منی لانڈرنگ کے لئے فرنٹ آفس کے طور پر استعمال کیا گیا جبکہ ریکارڈ اور کیش کی ترسیل ایمبولینس کے ذریعہ کی جاتی رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک منظم کرپشن نیٹ ورک تھا جس کے ذریعے اربوں روپے غیر قانونی طریقہ سے بیرون ملک منتقل کیے گئے۔
یہ کارروائی ایف آئی اے کی جاری تحقیقات کا حصہ تھی جس میں چھاپوں کے ذریعہ شواہد اور دستاویزات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ یہ ریکارڈ تمام ٹرانزیکشنز میں ہنڈی اور حوالہ کے غیر قانونی طریقوں کو ثابت کرتا ہے، اس ریکارڈ کو ہسپتال میں اس لیے رکھا گیا تھا کہ کسی کو شک نہ ہو اور بڑی چالاکی سے ہسپتال کو فرنٹ آفس کے طور پر استعمال کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مزید رقوم کی منتقلی کا انکشاف بھی متوقع ہے، ابھی تحقیقات کی صرف شروعات ہیں، جس میں ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف یہ شواہد اور ثبوت سامنے آئے ہیں۔‘
نیب کے ملک ریاض پر الزامات
رواں برس جنوری میں نیب نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ، سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات پر نوٹس جاری کیا تھا۔
نیب سے جاری بیان کے مطابق ’ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے، ملک ریاض نے سرکاری اور نجی اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔
’ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر پشاور اور جام شورو میں زمینوں پر قبضے کیے، انہوں نے بغیر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کی ہیں۔‘
نیب کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’نہ صرف یہ بلکہ ملک ریاض اور ان کے ساتھی لوگوں سے دھوکہ دہی کے ذریعے بھاری رقوم وصول کر رہے ہیں اور وہ اس وقت این سی اے کے مقدمے میں ایک عدالتی مفرور ہیں۔‘
نیب نے بیان میں کہا کہ ’ملک ریاض نیب اور عدالت دونوں کو مطلوب ہیں، نیب بحریہ ٹاؤن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے ضبط کر چکا ہے اور اب بحریہ ٹاؤن کے مزید اثاثہ جات کو ضبط کرنے کے لیے بلا توقف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔‘
پس منظر
برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جس کے بعد این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے دی تھی۔
معلومات کے مطابق یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے تھے۔
اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں سپریم کورٹ کو ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔ بنیادی طور پر نیب کے مطابق الزام یہی ہے کہ لگ بھگ 40 ارب روپے جو کہ قومی خزانے سے تھے، بحریہ ٹاؤن کے قرض کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔