ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے انڈیا پر یہ کہتے ہوئے بھاری ٹیرف لگا دیا کہ وہ روس سے بڑے پیمانے پر تیل کی درآمد کرنے کی وجہ سے یوکرین میں روس کی جنگ کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
چند دن پہلے یورپی یونین نے روسی تیل پر اپنی 18ویں پابندیوں کا پیکیج عائد کیا، جس میں وادی نار ریفائنری بھی شامل تھی، جو نایارا انرجی کی ملکیت ہے اور جس میں روس کی کمپنی روسنیفٹ کے 49.13 فیصد حصص ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے خود پچھلے مہینے اپنی گیس کا 12 فیصد حصہ روس سے درآمد کیا اور کسی نے اس پر یوکرین میں جنگ کی مالی معاونت کا الزام نہیں لگایا۔
حتیٰ کہ خود امریکہ بھی روس سے افزودہ یورینیم درآمد کرتا رہا ہے اور کسی نے اس پر روس کی جنگ کی مالی معاونت کا الزام نہیں لگایا۔
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب روسی تیل پر پابندیاں لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو ان پابندیوں کو قانونی اور دانستہ طور پر اس طرح تشکیل دیا گیا کہ دیگر ممالک، مثلاً انڈیا روسی تیل درآمد اور صاف کریں اور پھر یہ صاف شدہ مصنوعات یورپ اور امریکہ کو بیچیں۔
اس کے بعد قیمت کی حد مقرر کی گئی تاکہ انڈیا اور چین کو سستا تیل فراہم کیا جا سکے اور اس طرح یورپی یونین کو برآمد ہونے والی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔
کیا ٹرمپ انتظامیہ کو ان معاملات کا علم نہیں یا اس نے سب کو چکرا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا ایک اٹل مقصد تیل کی قیمتوں کو کم رکھنا ہے اور وہ ایسی کسی بھی پالیسی کی مخالفت کریں گے جو قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے۔
اس بات کے 30 سال سے زیادہ عرصے سے اکٹھے ہونے والے شواہد ہیں کہ بطور کاروباری شخصیت بھی وہ تیل کی بلند قیمتوں کے مخالف رہے ہیں۔
لہٰذا جو کچھ ٹرمپ انتظامیہ انڈیا کی روسی تیل کی درآمدات کے بارے میں کہہ رہی ہے، وہ دراصل انڈیا پر تجارتی معاہدے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔
جہاں تک انڈیا روس آئل ریفائنری پر یورپی یونین کی تازہ ترین پابندیوں کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ انڈیا طویل عرصے سے یورپی یونین اور برطانیہ کی پابندیوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے اور انڈیا کے تیل صاف کرنے کے کارخانے روزانہ ممنوع آئل ٹینکر وصول کرتے ہیں۔
تاہم سابقہ پابندیوں میں دو حیران کن فیصلے سامنے آئے: پہلا، انڈیا میں صاف شدہ روسی تیل سے بنے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر پابندی اور دوسرا نایارا انرجی ریفائنری پر پابندی۔
ان فیصلوں کی حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین خود کو ہی پابند کر رہی ہے۔ جیسا کہ عام طور پر پابندیوں اور معاشی قدغنوں کے فیصلوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
ابتدائی چند دنوں میں ردعمل آتا ہے کیونکہ سب ان فیصلوں کے مواد اور اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے جہازوں کو لادنے یا اتارنے میں تاخیر ہوتی ہے، جس سے سٹاک بڑھ سکتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔
اگرچہ بلومبرگ جیسے میڈیا ادارے نے رپورٹ کیا ہے کہ انڈین ریفائنریوں نے پابندیوں کے خوف سے آئل ٹینکرز اتارنے سے انکار کر دیا، لیکن Kpler اور دیگر کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر جہازوں نے اپنا سامان اتار دیا اور کچھ خطے سے نکل بھی گئے۔
ٹرمپ انڈیا سے کیا چاہتے ہیں؟
ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ ’امریکہ پہلے‘ کے اصول پر مبنی اقتصادی اور تزویراتی اہداف حاصل کریں۔
ان کے انڈیا سے بڑے مطالبات میں شامل ہے تجارتی خسارے کو کم کرنا، امریکی مصنوعات خاص طور پر زرعی شعبے (جیسے سویا بین اور جینیاتی طور پر تیار شدہ مکئی) اور ڈیری مصنوعات کو انڈین منڈی میں داخل ہونے دینا اور انڈیا کی بلند ٹیرف اور غیر ٹیرف رکاوٹوں کو کم کرنا، جنہیں وہ ’سب سے سخت اور پیچیدہ‘ قرار دیتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے یکم اگست، 2025 سے انڈین درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف نافذ کیا، جو انڈین بلند ٹیرف کے بدلے میں ہے۔
انہوں نے مزید پابندیوں کی دھمکی بھی دی، جن میں 100 سے لے کر 500 فیصد تک کے ثانوی ٹیرف شامل ہیں، خاص طور پر روس سے انڈیا کی تیل اور اسلحہ کی خریداری کی وجہ سے۔
امریکی درآمدات پر انڈین مصنوعات کا ٹیرف 25 فیصد ہے، جو پہلے سے زیادہ ہے لیکن کچھ امریکی مصنوعات پر انڈین 52 فیصد ٹیرف سے کم ہے۔
فرق یہ ہے کہ امریکی ٹیرف مکمل طور پر لاگو ہوتے ہیں، جبکہ انڈین ٹیرف شعبہ وار مختلف ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ انڈیا اپنی روسی تیل کی درآمدات کم کرے۔
یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کا مقصد اسے امریکی تیل سے بدلنا ہے تاکہ تجارتی خسارہ کم ہو، چاہے یہ معاملہ یوکرین کی جنگ کے پردے میں ہی کیوں نہ لپٹا ہو۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ انڈیا امریکہ کے قریب ہو تاکہ ایک طرف چین کا مقابلہ کرے اور دوسری طرف برکس اتحاد کو ایک معاشی طاقت بننے سے روکے۔
آخر میں بات یہ ہے کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ روسی تیل پر انڈیا کا انحصار کم کرنے سے انڈیا کو زیادہ امریکی تیل خریدنا پڑے گا، جس سے تجارتی خسارہ کم ہو گا۔
اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نئے ٹیرف میں پہلی بار عالمی برانڈز کی جینرک دواؤں پر 25 فیصد ٹیکس شامل ہے، جو امریکہ کی دوا درآمدات کا 40 فیصد سے زیادہ ہیں۔
یہ دوائیں پہلے چھوٹ حاصل کرتی تھیں مگر اس بار نہیں، جس سے امریکہ میں دواؤں کی قیمتیں بڑھیں گی اور انڈیا کی سودے بازی کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔
انڈیا ٹرمپ سے کیا چاہتا ہے؟
انڈیا دفاعی اور سلامتی کے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے، خاص طور پر بحر ہند اور بحرالکاہل خطے میں چینی اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ خطے کے تنازعات میں سفارتی حمایت چاہتا ہے، خاص طور پر پاکستان اور چین کے حوالے سے۔
انڈیا معاشی، تجارتی اور تکنیکی تعاون بھی چاہتا ہے، ساتھ ہی امیگریشن قوانین اور انڈین آئی ٹی مہارت کے حوالے سے ہم آہنگی بھی چاہتا ہے، خاص طور پر ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے پیش نظر۔
مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انڈیا کو اس کی زیادہ تر خواہشات دے سکتے ہیں، لیکن انڈیا ٹرمپ کو وہ سب نہیں دے گا جو وہ چاہتے ہیں اور اس طرح دونوں ممالک کے درمیان تنازع جاری رہے گا۔
انڈیا نے 2021 کی پہلی ششماہی میں اپنی کل تیل درآمدات کا تقریباً 10.7 فیصد امریکہ سے خریدا، جو روس کے یوکرین پر حملے سے پہلے تھا۔ لیکن اس سال کی پہلی ششماہی میں یہ حصہ کم ہو کر 5.5 فیصد رہ گیا۔
اسی عرصے میں روس سے تیل کی درآمدات تین فیصد سے بڑھ کر 37.3 فیصد ہو گئیں! ایل این جی کی درآمدات آدھی رہ گئیں۔
چونکہ انڈیا کی امریکی تیل اور ایل این جی کی درآمدات کم ہیں، اس کا دوگنا کرنا آسان ہے اور عالمی منڈی پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
دوسرے لفظوں میں انڈیا اگر چاہے تو ٹرمپ سے جلد معاہدہ کر سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انڈیا اپنی روسی تیل کی درآمدات کم کر سکتا ہے اور دوسرے ممالک، بشمول امریکہ، سے متبادل حاصل کر سکتا ہے، لیکن روسی تیل کی تمام درآمدات ختم نہیں کر سکتا۔
شماریاتی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر روسی تیل کو مارکیٹ سے ہٹا دیا جائے تو تیل کی قیمت فی بیرل 150 ڈالر سے اوپر چلی جائے گی، جو ٹرمپ انتظامیہ نہیں چاہے گی۔
نتیجہ یہ ہے کہ انڈیا روسی تیل کی درآمدات جاری رکھے گا اور شاید کچھ کم کر کے امریکہ سے زیادہ خریدے گا لیکن عالمی تیل منڈی پر اثر محدود رہے گا۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔