دنیا کے نقشے پرآج 65 ممالک ایسے ہیں، جنہوں نے تاجِ برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ انگریزوں نے دنیا کے بیشتر علاقے پر چڑھائی کی، جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے 25 فیصد علاقے پر اپنا جھنڈا گاڑنے میں کامیاب ہو گئے۔
دنیا کی تاریخ میں جو مرتبہ تاجِ برطانیہ کو حاصل ہوا، وہ نہ اس سے پہلے کسی ملک کو حاصل ہوا تھا نہ ہی اس کے بعد مل سکا ہے۔
اگرچہ امریکہ آج دنیا کا واحد ملک ہے جس کے سفارتی روابط دنیا کے 190 ممالک کے ساتھ قائم ہیں، امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 153 ممالک ایسے ہیں جہاں اس کی فوج کم یا زیادہ تعداد میں موجود ہے، لیکن ان ممالک کو آپ برطانیہ کی طرح کی نوآبادیات قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ان میں پاکستان جیسے ممالک بھی ہیں جہاں سفارتی عملے کی حفاظت یا دو طرفہ فوجی تعاون کے سلسلے میں امریکی فوجوں کی موجودگی پائی جاتی رہی ہے۔
تاجِ برطانیہ اپنی اتنی وسیع و عریض نوآبادیات سے کیسے دستبردار ہوا؟ اس کا جواب بظاہر سادہ ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کی معیشت اتنے بڑے زوال کا شکار ہو چکی تھی کہ اب اس کے لیے اپنی نوآبادیوں پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی تھی اوراب امریکہ چاہتا تھا کہ دنیا برطانوی نوآبادیاتی اصولوں کی بجائے جمہوریت اور آزادی کے ان اصولوں کے مطابق چلے جنہیں امریکہ نے وضع کیا ہے۔
ہندوستان کی آزادی اور اس کے نتیجے میں پاکستان و انڈیا کے قیام کے پیچھے ہم صرف تاریخ کا ایک رخ جانتے ہیں کہ اس کے لیے مسلم لیگ اور کانگریس کی جدوجہد کیا تھی، لیکن ہم ان خارجی حالات کو بھول جاتے ہیں، جو اگر رونما نہ ہوتے تو برطانیہ اتنی جلدی اور آسانی سے یہاں سے رخصت نہ ہوتا۔
ان میں سب سے اہم کردار امریکی صدر روز ویلٹ کا ہے جو 1933 سے 1945 تک امریکی صدر رہے۔ وہ امریکی تاریخ میں واحد صدر ہیں جو دو مرتبہ سے زیادہ صدر رہے۔ امریکی صدر کے بیٹے ایلیٹ روزویلٹ نے ایک کتاب ’As He Saw It‘ لکھی جو 1946 میں چھپی۔ یہ کتاب دوسری عالمی جنگ کے دوران ان کے باپ کی نہایت اہم ملاقاتوں سے متعلق ہے جن میں ایلیٹ بھی موجود تھے۔ یہ کتاب اُس بدلتی ہوئی دنیا کے بارے میں ایک چشم دید گواہی بھی ہے، جو ایلیٹ کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران جب برطانیہ ہٹلر کے خوف میں مبتلا تھا اور اسے یہ ڈر تھا کہ جرمنی کہیں برطانیہ کو بھی اپنی نوآبادی نہ بنا لے۔ اس لیے اس کی کوشش تھی کہ امریکہ اس جنگ میں شامل ہو جائے۔ گویا برطانوی بقا کا انحصار اب جنگ میں ممکنہ امریکی کردار پر تھا۔
امریکہ نے اس فیصلہ کن مرحلے کو کیسے استعمال کیا؟ سب سے پہلے تو اس نے برطانیہ کو یہ باور کروایا کہ اب اس کا دور ختم ہو چکا ہے، مستقبل کی دنیا کیسے ہو گی؟ اس کا تعین اب امریکہ کرے گا، برطانیہ نہیں۔ اس کے لیے دونوں ممالک کے درمیان 14 اگست 1941 کو ایک معاہدہ ہوا جسے تاریخ میں ’معاہدہ اٹلانٹک‘ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے سے پہلے 10 اگست کو دونوں رہنما پہلی بار ملے جس میں یہ طے پایا کہ برطانیہ اپنی نوآبادیات سے دستبردار ہو جائے گا۔ اس کے لیے ایک شیڈول بھی طے پایا۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ معاہدۂ اوقیانوس کی چھٹی سالگرہ پر ہندوستان کو آزادی ملی یا پھر یہ آزادی دونوں ممالک کے درمیان کسی خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھی؟ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے لیکن ایلٹ روز ویلٹ کی کتاب میں 10 اگست 1941 کو دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں جو کچھ ہوا، وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں امریکہ کا کردار کتنا اہم تھا۔ ایلٹ نے اس ملاقات کا احوال مکالمے کی صورت بیان کیا ہے۔
’چرچل: جنابِ صدر! میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے ذہن میں ایک ایسے مستقبل کا خاکہ ہے جس میں برطانوی سلطنت موجودہ تزک و احتشام کے ساتھ موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہماری آخری امیدیں آپ سے وابستہ ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔‘
یہ کہتے ہوئے گویا چرچل یہ تسلیم کر چکے تھے کہ برطانوی نوآبادیات کا دور اب ختم شد ہے اورمستقبل کی دنیا میں اب وہی کچھ ہو گا، جو امریکہ طے کرے گا۔ عالمی تجارت پر غلبہ پانے کی برطانوی کوششیں اب قصۂ پارینہ ہیں اور نہ ہی روس کو امریکہ کے مقابل لا کھڑنا کرنے کی برطانوی خواہش کوئی معنی رکھتی ہے۔
روزویلٹ اپنے بیٹے ایلٹ کو کہتے تھے کہ نو آبادیاتی نظام استحصالی اور غیر منصفانہ ہے، جس کی وجہ سے نوبت جنگوں تک پہنچتی ہے۔ چرچل ہندوستان سمیت اپنی نوآبادیات سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے جبکہ روزویلٹ نوآبادیات کی بجائے ایک ایسی دنیا کا قیام چاہتے تھے جو اقوامِ متحدہ کے جمہوری اصولوں پر چلے نہ کہ ایسی سلطنتوں کے اصولوں پر جنہوں نے آدھی دنیا کو غلام بنا کر رکھا ہو۔
امریکہ اس نظریے پر دن رات میں نہیں پہنچا تھا بلکہ یہ وہاں پر ایک عرصے سے جاری مذہبی مباحث کا نتیجہ تھا، جس کی بنیاد پر روزویلٹ کی سوچ چرچل کی سوچ سے بالکل جداگانہ تھی۔ اس کا اندازہ اس مکالمے سے ہو سکتا ہے۔
روزویلٹ: جناب وزیراعظم آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس جنگ میں کود پڑیں؟
چرچل: جی ہاں جناب صدر۔
روزویلٹ: ہم ایک ایسی جنگ میں اپنا سرمایہ اور خون کیوں بہائیں جو ہماری نہیں ہے؟ پچھلی جنگ میں جو کچھ ہم نے آپ کے لیے کیا وہ کافی نہیں ہے؟ ہم ابھی تک اس نقصان سے باہر نہیں نکلے اور ہماری معیشت ابھی بھی کساد بازاری کی زد میں ہے۔
چرچل: آپ کو جنگ میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ اگر نازیوں نے یورپ اور جاپان نے ایشیا پر قبضہ کر لیا تو امریکہ کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
روزویلٹ: میرے لوگ اس جھنجٹ میں پڑنا نہیں چاہتے۔ ایسی جنگ میں وہ کیوں شریک ہوں جو ان کی نہیں ہے؟
چرچل: آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کواس جنگ میں زبردستی دھکیلا جا رہا ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ دونوں بدمست طاقتوں کا آخری نشانہ امریکہ ہی ہو گا۔
روزویلٹ: فرض کریں اس جنگ میں ہم آپ کی مدد کرتے ہیں تو اس سے کیا ہو گا؟ کیا آپ جرمنی اور جاپان کو بھی اپنی نوآبادی بنانا چاہیں گے؟ پھر اس کے بعد آپ یہ بھی خواہش کر سکتے ہیں کہ امریکہ میں بھی آپ کی سابق کالونیاں برطانیہ کو واپس مل جائیں۔
چرچل: میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سوچا کہ جنگ جیتنے کے بعد کیا ہو گا، میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ہم ہار گئے تو کیا ہو گا۔ کیا مجھے ہارنے کی صورت میں یہ دن بھی دیکھنا پڑ سکتے ہیں کہ ہندوستانی اس بنیاد پر جرمنی کے ساتھ مل گئے ہیں کہ دونوں کا خون آریائی ہے۔
روزویلٹ: پھر ہٹلر اور آپ میں فرق ہی کیا ہے؟ ہٹلر یورپ پر قبضہ چاہتا ہے اورآپ پوری دنیا پر۔
چرچل: کیا واقعی آپ میرا تقابل ہٹلر سے کر رہے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روزویلٹ: جناب وزیراعظم، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ امریکی ایک مذہبی قوم ہیں۔ میں اس وقت تک اپنی قوم کو جنگ میں کیسے دھکیل سکتا ہوں جب تک میرے پاس اس کی کوئی واضح منطق نہ ہو۔ 1776 میں ہمارے آبا و اجداد نے اس لیے برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ خدا نے بابل کی سلطنت کو بھی اس لیے تباہ کیا تاکہ قومیں آزاد ہو سکیں۔ اگر یہ جنگ تاجِ برطانیہ کو بچانے کے لیے ہے تو پھر یہ آپ کو خود ہی لڑنی ہو گی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس جنگ میں امریکہ بھی شریک ہو تو پھر آپ کو مجھے ایسی تاویلیں دینی ہوں گی، جن کی بنیاد پر میں اپنی قوم کو بتا سکوں کہ یہ جنگ آزادی، حریت، نوآبادی ظلم اور آمریت کے خلاف ہے۔
چرچل: ویسٹ منسٹر کے 1931 کے قوانین کے تحت کینیڈا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کو پہلے ہی آزادی دی جا چکی ہے۔ آسٹریلیا کو بھی یہ اختیار دیا جا چکا ہے کہ وہ جب چاہے الگ ہو جائے۔
روزویلٹ: میں یہ سب جانتا ہوں لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں ہے۔ ہندوستان کو فوری طور پر پانچ سے دس سالوں کے دوران تاجِ برطانیہ خود مختاری دے، بالکل اسی طرح جس طرح آسٹریلیا کو حق خود اختیاری دیا جا رہا ہے۔
ایلیٹ کے مطابق ان کے والد ایک آزاد دنیا کا خواب دیکھتے تھے، جہاں پر محکوم قوموں کو آزادی کے بعد اپنی حالت خود سنوارنے کا موقع ملے اور وہ آزاد منڈیوں میں تجارت کر سکیں۔
چرچل: برطانوی سلطنت انہیں ایسے مواقع فراہم کرتی ہے۔۔۔
روزویلٹ: پھر ہندوستانی اور افریقی آج بھی پسماندہ کیوں ہیں؟
چرچل: تاجِ برطانیہ کسی صورت اپنے اس مراعات یافتہ نظام کو کھونا نہیں چاہتا، جس کی وجہ سے انگلینڈ عظیم سلطنت بنا۔
روز ویلٹ: مجھے آپ سے اتفاق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پائیدار امن پسماندگی کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔ آپ دنیا کو اٹھارویں صدی کے طور طریقوں کے مطابق نہیں چلا سکتے۔ برطانوی تجارتی معاہدوں کی وجہ سے ہی ہندوستان، افریقہ اور ایشیائی اقوام آج بھی پسماندہ ہیں۔ ہم فسطائیت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ہم غلامی کے خلاف ہیں اور نو آبادیاتی پالیسیاں ہمارے لیے کسی صورت قابلَ قبول نہیں ہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ خام مال نوآبادیوں سے نکال کر اپنے کارخانے چلائیں اس کے مقابلے پر صنعتیں انہی ممالک میں لگائیں تاکہ پسماندہ اقوام کی حالت بدلے۔
ایلیٹ روزویلٹ کے مطابق جب یہ باتیں روز ویلٹ کر رہے تھے تو چرچل کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ روزویلٹ کے مشیر ہیری لوئیڈ ہاپکنز مسکرا رہے تھے اور چرچل کے مشیر کمانڈر ٹامسن افسردہ نظر آ رہے تھے۔
چرچل نے غراتے ہوئے کہا: ’آپ نے ہندوستان کا ذکر کیا۔‘
روزویلٹ: جی بالکل، میں یہ یقین نہیں کر سکتا کہ ایک ہی وقت میں ہم فسطائی غلامی کے بھی خلاف ہوں اور دوسری جانب ایک ایسے ملک کا ساتھ بھی دیں جو دنیا کو نو آبادیاتی اصولوں کے مطابق چلانا چاہتا ہو۔
ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کے قیام میں اس انتہائی اہم تاریخی مکالمے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسی کے اندر دراصل اس دنیا کا مجوزہ نقشہ ملتا ہے، جس میں آج ہم سانسیں لے رہے ہیں۔
ہاں یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ نوآبادیات کا دور ختم ہوا ہے یا پھر اس نے اپنی شکلیں بدل لی ہیں اور آج ہم کتنے آزاد ہیں اور کتنے غلام ہیں؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔