خیبر پختونخوا حکومت کا پشاور میں امن جرگہ جاری

صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر خیبر پختونخوا حکومت کی میزبانی میں ہونے والے ’امن جرگے‘ میں سیاسی جماعتیں، وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہیں۔

پشاور میں بدھ کو صوبہ خیبر پختونخوا کے امن و امان کی صورت حال پر امن جرگہ جاری ہے جس میں مختلف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، وکلا اور میڈیا کے نمائندے موجود ہیں۔

یہ جرگہ صوبائی حکومت کی میزبانی میں ہو رہا ہے جس میں صوبے کی سکیورٹی صورت حال پر غور اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مرکزی اور صوبائی قائدین مدعو ہیں۔

جرگے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی اور قائد حزب اختلاف ڈاکٹر عباداللہ، جماعت اسلامی کے سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین، پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد کنڈی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین موجود ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سات نومبر کو اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر امیر مقام کو بھی دعوت دی تھی، جس کا امیر مقام نے مثبت جواب دیا تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ خیبر پختونخوا کے گورنر کو بھی جرگے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے علاوہ جرگے میں وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہیں۔  

ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنسز اور جرگے بلائے تھے جن میں سب آخری کوشش گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے رواں سال جون میں جرگہ بلا کر کی تھی۔  

تاہم اس جرگے میں صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے شرکت نہیں کی تھی۔

پشاو کے صحافی محمود جان بابر کے مطابق سب سے پہلی خوش آئند بات یہ ہے کہ اگرچہ پی ٹی آئی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے جرگوں میں شرکت نہیں کی لیکن وہی جماعتیں آج ان (پی ٹی آئی) کے جرگے میں آ رہی ہیں۔

محمود جان کے خیال میں جرگہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہے کہ وہ افغانستان جا کر وہاں کے مشران سے ملے۔

’لیکن پاکستان اور افغانستان کے موجودہ حالات میں یہ اگر کسی بات پر متفق بھی ہو جاتے ہیں تو اس کو منوانا مشکل ہو گا کیونکہ آخر میں بات پھر بھی وفاقی حکومت کے پاس ہی آئے گی۔‘

اسی طرح محمود جان کے مطابق اگر یہ جرگہ افغانستان کے مشران سے بھی بات کرتا ہے تو وہاں کے عوام کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں بلکہ اختیار افغان طالبان کے پاس ہے اور وہی لوگ فیصلے کرتے ہیں۔

’فرض کریں آج کے جرگے میں افغانستان سے بات چیت کی بات ہوتی ہے اور بات چیت میں اس جانب سے کوئی مطالبات رکھے جاتے ہیں تو وہ مطالبات ماننے کا اختیار اس جرگے کے پاس نہیں۔‘

اس سے قبل پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی ہدایت پر سابق وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے افغان طالبان سے بات چیت کے لیے وفد کابل بھیجنے کا اعلان کیا تھا اور خود بھی جانے کا بتایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سویڈن میں مقیم عبدالسید جنوبی ایشیا کے عسکریت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے محقق ہیں اور اس حوالے سے مختلف مضامین اور تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ کشیدگی اور اسی دوران خیبر پختونخوا حکومت کے جرگے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امن کے لیے عوامی تحریک چلانا ایک احسن اقدام ہے کیونکہ خیبرپختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع میں حالات تشویش ناک حد تک خراب ہیں۔

انہوں نے بتایا اس مقصد کے لیے سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا متحرک ہونا ضروری ہے البتہ اس مسئلے کا حل وفاقی حکومت کے اختیار میں ہے۔

عبدالسید نے بتایا ’عوام تو آپریشن کی بجائے پرامن طور پر بدامنی کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کا راستہ مذاکرات و بات چیت ہیں۔‘

انہوں نے بتایا ’ان سیاسی اجتماعات کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ بدامنی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے کی عوام کا اس مسئلے کے حل کے لیے آواز و تجویز ایک بڑے پلیٹ فارم سے سامنے آسکے گی جو شاید موثر رہے۔‘

جرگے کی نشست اور اس کے بعد کے فیصلوں کا جرگہ ختم ہونے کے بعد سامنے آئے گا۔

تاہم پی ٹی آئی اور خیبر پختونخوا حکومت کا خیال ہے کہ اس جرگے سے صوبے کی بدامنی کا مسئلہ شاید حل ہو سکے۔

وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کے گورنر فیصل کریم کنڈی صوبے میں حکمراں تحریک انصاف پر ماضی میں امن عامہ کی صورت حال پر توجہ نہ دینے اور اسمبلی میں بھی بات نہ کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست