باجوڑ میں ٹی ٹی پی کارروائیاں مولوی فقیر محمد دیکھ رہے ہیں: جرگہ سربراہ

باجوڑ امن جرگہ کے سربراہ صاحبزاباجوڑ امن جرگہ کے سربراہ صاحبزادہ ہارون الرشید کا اصرار ہے کہ یہ جرگہ اب بھی سرگرم ہے اور امن کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں گذشتہ دنوں حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات کی کوشش کرنے والے جرگے کے سربراہ صاحبزادہ ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں شدت پسند کارروائیوں کو مولوی فقیر محمد ہی دیکھ رہے ہیں۔

باجوڑ میں قیام امن کی کوششوں میں مصروف مقامی امن جرگے کے سربراہ صاحبزادہ ہارون الرشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے انٹرویو میں کہا: ’جی، اس وقت وہ (مولوی فقیر محمد) تحریکِ طالبان پاکستان کے نائب امیر ہیں اور باجوڑ کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ باجوڑ کے امور وہی دیکھ رہے ہیں۔‘

افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع پاکستانی ضلع باجوڑ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے عسکریت پسندوں کے خلاف ایک اور فوجی کارروائی کی وجہ سے خبروں میں ہے۔ ماموند کے علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد ایک مرتبہ پھر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

مولوی فقیر محمد باجوڑ کے اہم طالبان رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں مقامی سطح پر طالبان کا سربراہ یا کمانڈر اور کبھی کبھار تحریکِ طالبانِ پاکستان کے اعلیٰ عہدے دار بتائے جاتے ہیں۔  وہ کہاں موجود ہیں اس بارے میں مصدقہ اطلاعات یا سرکاری موقف تو موجود نہیں لیکن شبہ ہے کہ وہ افغانستان میں ہیں۔

تاہم باجوڑ کے جرگے کے ساتھ براہ راست رابطہ اور ملاقاتوں میں ٹی ٹی پی کے مقامی کمانڈر الیاس عرف ملنگ باچہ پیش پیش رہے ہیں۔

باجوڑ کے مقامی عمائدین پر مشتمل ایک جرگے نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نمائندوں سے مذاکرات بھی کیے لیکن بات کچھ بنی نہیں۔ جرگے کی ناکامی کے سوال پر صاحبزاہ ہارون الرشید نے شکایت کی کہ فریقین کے اچانک پیچھے ہٹنے سے تعطل آ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’بدقسمتی یہ رہی کہ جب بات آگے بڑھ رہی تھی تو اچانک فریقین — حکومت اور ٹی ٹی پی نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ہمارے لیے گلہ بھی ہے۔‘

اس سے بات چیت بغیر کسی فیصلے کے رک گئی تاہم اسے بحالی کرنے کے لیے رابطے جاری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہارون الرشید قومی اسمبلی کے سابق رکن رہ چکے ہیں اور جماعت اسلامی باجوڑ کے امیر ہیں۔ سال 2006 میں میں باجوڑ پر امریکی ڈرون حملے کے خلاف انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

موجودہ حالات میں بھی وہ امن قائم کرنے کے لیے سرگرم ہیں اور امن جرگہ کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کے دوران صاحبزادہ ہارون الرشید نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لاپتہ افراد کے مسئلے پر کافی آواز بلند کی۔

باجوڑ میں گذشتہ ایک سال سے جاری بدامنی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ باجوڑ سے وزیرستان اور دیربالا تک کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ ’مسئلہ وہی ہے کہ پاکستان کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہماری ہی قوم اور علاقے کے کچھ لوگ کو گلے شکوے ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے یہی صورت حال ہے۔‘

ان کے مطابق باجوڑ میں سربکف کے نئے نام سے یہ تیئسواں آپریشن ہے جو ہو رہا ہے اور لوگ کب تک ان حالات کا شکار رہیں گے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا جا رہا بلکہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ہارون الرشید کا سوال تھا کہ اب دوبارہ یہ مسئلہ کیوں سر اٹھا رہا ہے؟ ’ یہی تو سوال ہے اور یہی قوم کا اپنے ریاست سے ریاستی عہدیداروں سے ایک دردمردانہ اپیل بھی ہے کہ خدا را اس مسئلے کو ختم کریں۔ دنیا کے تمام مسائل کا حل آخر کار ڈائیلاگ کے ذریعے، جرگوں اور سفارت کاری سے حل ہوتے ہیں۔ اگر یہ مسئلہ لڑائی سے حل ہونا ہوتا تو گذشتہ پچیس سال میں کوئی بائیس آپریشن ہو چکے ہیں تو حل ہو گیا ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جرگہ ابھی بھی موجود ہے اور قیام امن کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’یہ کسی حکومت یا فریق کا جرگہ نہیں، بلکہ پندرہ لاکھ عوام کی نمائندگی کرنے والا جرگہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں، علما، تاجر، نوجوان اس میں شامل ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ماموند کے علاقے سے ایک لاکھ تک افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کو حکومت نے پندرہ ہزار روپے کی رق دے دی ہے اور ایک لاکھ تک دینے کا اعلان ہے۔ تاہم گھر بار چھوڑنا کوئی آسان بات نہیں۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان