خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ سے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے مطابق ماموند کے علاقے میں سکیورٹی حالات کی وجہ سے 55 ہزار بےگھر ہوچکے ہیں۔ البتہ ضلعی انتظامیہ کے مطابق سرکاری عمارتوں میں رکھے جانے والے متاثرین کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ ہے۔
صوبائی اسمبلی میں پیر کو بحث کے دوران باجوڑ سے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن نثار باز خان نے شکایت کی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب مدد نہ ملنے کی وجہ سے یہ افراد مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ ’نہ تو صوبائی اور نہ ہی وفاقی حکومت نے ان کے لیے کوئی انتظام کیا ہے۔‘
دوسری جانب باجوڑ کی ضلعی انتظامیہ کے اعدادوشمار کے مطابق 11 اگست کی شام تک سرکاری عمارتوں میں 954 عارضی نقل مکانی کرنے خاندانوان کو رکھا گیا جس میں مجموعی افراد کی تعداد آٹھ ہزار سے اوپر ہے۔
تازہ نقل مکانی کی وجہ باجوڑ کی تحصیل لوئی ماموند میں عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں ہیں جو اطلاعات کے مطابق پیر کو دوبارہ شروع کر دی گئیں۔ صوبائی حکام کے مطابق یہ فوجی کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں اور کوئی بڑا آپریشن نہیں۔
لیکن باجوڑ کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ ہونے کے بعد وہاں سے کئی خاندان محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
باجوڑ امن جرگہ اور مقامی شدت پسند کمانڈروں کے درمیان امن مذاکرات میں فوجی کارروائی سے بچنے کی خاطر مقامی قبائلی عمائدین اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن بےنتیجہ رہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے تازہ کارروائیوں کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود اعدادوشمار کے مطابق نقل مکانی کرنے والے متاثرین 53 لڑکوں اور 29 لڑکیوں کے سکولوں کی عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں۔
ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ تعداد صرف ان متاثرین کی ہے جو سرکاری عمارتوں میں موجود ہیں جبکہ باقی دیگر جگہوں میں رہائش پذیر خاندانوں کی رجسٹریشن جلد شروع کی جائے گی۔
نقل مکانی کرنے والوں کی حالت زار
خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے ایک گھر میں ایک بچی کھانس اور رو رہی ہے جبکہ دوسرے اہل خانہ اس کی طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے گھریلوں ٹوٹکے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن والے علاقے سے نقل مکانی کرنے والا ایک خاندان ہے جس نے کسی کے ہجرے میں پناہ لے رکھی ہے۔
گھر کے مالک عطااللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بجلی کی غیر موجودگی میں شدید گرمی کے باعث بچی کی طبیعت بگڑ گئی اور اسے الٹیاں شروع ہو گئیں۔
’ہمیں رات 12 بجے اسے ہسپتال لے جانا پڑا تھا۔ بہرحال اب وہ بہتر ہے۔‘
عطاللہ نے نقل مکانی کرنے والے 10 خاندانوں کو اپنے ہجرے میں پناہ دے رکھی ہے اور انہیں کھانا پینا بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’باقی تو جو ہم کھائیں گے انہیں بھی دیں گے لیکن بجلی کا مسئلہ ہمارے بس سے باہر ہے اور اس گرمی میں بغیر بجلی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ ہونے کے بعد وہاں سے کئی خاندان محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
تاہم نقل مکانے کرنے والے خاندانوں نے گلہ کیا کہ سرکاری سطح پر ان کی مدد کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ضلع باجوڑ میں گذشتہ کچھ عرصے سے امن و امن کی حالت مخدوش ہے اور اسی وجہ سے ضلع کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
ضلعی ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق بدھ (11 اگست) سے خار منڈا روڈ، خار ناواگئی روڈ، خار پشت سلارزئی روڈ اور خار صادق آباد ناواگئی کلے پر صبح 11 سے رات 11 بجے تک گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی ہو گی، جو تین روز تک جاری رہے گی۔
جن علاقوں میں کرفیو لگایا گیا ہے ان میں لغرئی، گواٹی، غنم شاہ، باد سیاہ، زگئی، گٹ، کمر، گڑیگال، نیاگ کلی، ڈاگ، ڈما ڈولہ، سلطان بیگ، چوترا، شین کوٹ، گنگ، جیوار، انعام خورو، چینگئی، انگا، سفری، بر کٹگی، خرکی، شکرو اور بکرو شامل ہے۔
باجوڑ میں گذشتہ ہفتے مقامی عمائدین اور سیاسی قائدین کے جرگے نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مقامی قیادت سے امن مذاکرات کیے۔
تاہم جرگے کے سربراہ صاحبزادہ ہارون رشید کے مطابق ٹی ٹی پی اور سرکاری حکام کے ساتھ کئی نشستیں کے باوجود ایک نکتے پر ڈیڈ لاک آ گیا ہے۔
جرگے نے ٹی ٹی پی کے علاوہ سرکاری حکام اور وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے بھی ملاقاتیں لیکں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد ہی ضلع کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کی۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق باجوڑ میں بڑے پیمانے پر کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ ٹارگٹیڈ آپریشن ہے۔
انہوں نے گذشتہ دنوں پشاور میں میڈیا کو بتایا تھا کہ ٹارگٹیڈ آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں عوام کی سہولت کے لیے ایمرجنسی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔
’میں یہ تاثر رد کر رہا ہوں کہ کسی بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جا رہا ہے۔ یہ محدود کارروائیاں ہیں اور لوگوں کی حفاظت کے لیے متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔‘
نقل مکانی کے لیے انتظامات
باجوڑ کی ضلعی انتظامیہ کے پاس آپریشن کی زد میں آنے والے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
تاہم کیمپوں میں رضاکارانہ طور پر خدمات ادا کرنے والی غیر سرکاری تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے مطابق عارضی نقل مکانی کرنے والے افراد مختلف سرکاری عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن باجوڑ کے ترجمان عارف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان عمارتوں میں خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کہ ’ہماری تنظیم کی جانب سے کیمپوں میں آباد خاندانوں کو کھانا اور دیگر سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ باجوڑ سپورٹس کمپلیکس میں سب سے بڑا کیمپ قائم ہے لیکن اب وہاں مزید لوگوں کے لیے گنجائش نہیں رہی۔
’نقل مکانی کرنے والے کئی خاندان سرکاری سکولوں کی عمارتوں میں بھی رہائش پذیر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگرچہ ہم اپنی طرف سے سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان سکولوں میں مقیم لوگوں کو کھانے پینے کا مسئلہ درپیش ہے۔‘
ڈپٹی کمشنر باجوڑ شاہد علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیادہ گرمی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کو سرکاری سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں میں ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا ’پروینشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے ان کو رضائیاں اور کمبل مہیا کیے جا رہے ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ پکی پکائی خوراک دے رہی ہے۔‘
شاہد علی خان نے بتایا کہ عارضی نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو ون ٹائم پیکج منگل کو (12 آگست کو) صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد مہیا کیا جائے گا۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے قائم کیمپ میں موجود راحت یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کیمپ میں میڈیکل ٹیم موجود ہے جبکہ پانی کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے لیکن بجلی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ رات بھی بعض لوگوں کو گرمی کی وجہ سے مسئلہ پیش آیا تھا جبکہ بعض بچوں کو ہیضہ لاحق ہو گیا ہے کیونکہ خیموں میں پنکھے وغیر کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔
راحت نے بتایا ’کھانے پینے کا بندوبست موجود ہے لیکن شدید گرمی کی وجہ سے خیموں میں تکالیف زیادہ ہیں۔‘
باجوڑ کی صورت حال
باجوڑ کے مختلف علاقوں میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند ہیں جبکہ سڑکیں سنسان اور علاقے میں خوف کی فضا قائم ہے۔
باجوڑ کے مقامی صحافی محمد بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس شدید گرمی میں نقل مکانی کرنے والوں کو بہت مشکلات ہیں کیونکہ نقل مکانی کا فیصلہ بہت جلدی میں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع میں کاروبار زندگی معطل ہے اور بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کرفیو کا اعلان نہیں بھی کیا گیا ہے لیکن مارکیٹیں بند ہیں۔
بلال یاسر کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنے والوں کو ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔
’لوگ تو اپنے سامان سمیت گھروں سے نکل آتے ہیں لیکن کرفیو کی وجہ سے سڑک پر گاڑیاں دستیاب نہیں ہیں۔‘