خیبر پختونخوا میں پولیس نے منگل کو بتایا ہے کہ باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے 16 علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
مقامی پولیس نے اعلامیے میں یہ نہیں بتایا کہ کرفیو کا نفاذ کب تک رہے گا۔
باجوڑ میں حال میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے جہاں 10 جولائی کو باجوڑ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما مولانا خان زیب کو قتل کر دیا تھا۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں کے مدنظر 16 علاقوں میں کرفیو نافذ ہو گا۔‘
باجوڑ قومی و سیاسی مشران کا گرینڈ جرگہ اختتام پذیر ، اعلامیہ جاری
— Bilal Yasir (@BilalYasirBjr) July 29, 2025
غیر اعلانیہ آپریشن میں دونوں فریقین سویلین کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ بصورت دیگر سخت عوامی رد عمل کا انتظار کریں۔ pic.twitter.com/NNkNgQ0TKe
ادھر باجوڑ کے قبائلی مشران نے ایک اجلاس کے بعد وہاں جاری جھڑپوں میں ملوث فریقین سے عام شہریوں اور ان کی املاک کو نقصان نہ پہنچنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی اقدام کا جواب وہ بحثیت قوم دیں گے۔
سرکاری بیان میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کرفیو کے دوران ’گھروں سے نہ نکلیں تاکہ کوئی ناخشگوار واقع پیش نہ آئے بصورت دیگر ہر قسم کے نقصان کے ذمہ دار (کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والا) خود ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باجوڑ پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ شدت پسندوں کے خلاف آج سے ’ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا ہے اور علاقے میں 31 جولائی تک کرفیو نافذ رہے گا۔‘
باجوڑ کے اس علاقے کے ایک رہائشی جو آپریشن ایریا میں شامل ہے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مرکزی شاہراوں پر موجود تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’علاقے میں سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت دیکھی جا سکتی جبکہ کسی کو بھی باہر آنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
چار جولائی کو باجوڑ میں اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی پر بم حملے میں اسسٹنٹ کمشنر نواگئی فیصل اسماعیل اور تحصیل دار سیمت چار افراد جان سے گئے تھے۔
داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ بارودی مواد سے بھری موٹرسائیکل کے ذریعے اس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔