خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے جرگے نے پیر کو صوبائی حکومت کے سامنے علاقے میں امن کی بحالی، آپریشن نہ کرنے اور نقل مکانی پر مجبور نہ کرنے کی سفارشات رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق جرگے نے عسکریت پسندوں سے دو روزہ ملاقاتوں کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ملاقات کی، جنہوں نے جرگے کی کوششوں کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے امن کے قیام کے لیے قبائلی عمائدین کی کاوشوں کو سراہا۔
جرگے کے رکن واجد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بات چیت سازگار ماحول میں ہوئی۔ اُن کے مطابق، ’اب ہم مزید ملاقاتیں کریں گے اور کوشش کریں گے کہ جرگے کی یہ کوششیں علاقے میں پائیدار امن کے لیے مفید ثابت ہوں۔‘
تقریباً دو ہفتے قبل باجوڑ کے بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے پر ضلعی انتظامیہ نے کرفیو نافذ کیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے ان علاقوں میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔
تاہم، مقامی آبادی نے مطالبہ کیا کہ آپریشن روکا جائے اور شہریوں کو دوبارہ بے گھر نہ کیا جائے۔
اس حوالے سے باجوڑ میں ایک امن مارچ بھی ہوا اور جماعت اسلامی، باجوڑ کے امیر صاحب زادہ ہارون رشید کی قیادت میں عمائدین پر مشتمل ایک جرگہ تشکیل دیا گیا۔
جرگے نے سرکاری حکام کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مقامی نمائندوں سے باجوڑ کی ایک مسجد میں دو روز تک ملاقاتیں کیں۔
ہارون رشید کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد امن کا راستہ نکالنا تھا، اور انہوں نے اس دوران حکومت اور عسکریت پسندوں دونوں سے بات چیت کی۔
باجوڑ میں حالیہ دنوں میں ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں، جن میں عوامی نیشنل پارٹی علما ونگ کے ضلعی صدر مولانا خان زیب بھی شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا خان زیب کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ امن مارچ کی مہم کا حصہ تھے۔
واجد علی کے مطابق جرگہ ممبران نے حکام سے رابطہ کر کے عسکریت پسندوں سے ملاقات کی اجازت لی۔
انہوں نے بتایا کہ ان ملاقاتوں میں جرگے نے دو اہم مطالبات پیش کیے عسکریت پسند یا تو افغانستان واپس چلے جائیں یا آبادی سے دور علاقوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ عام شہری جنگ کا نشانہ نہ بنیں۔
دوسرا، مستقبل میں کسی بھی مسلح کارروائی سے گریز کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک سرکاری حکام اور عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت مثبت ماحول میں ہوئی ہے اور اسی تناظر میں غیر اعلانیہ طور پر فائر بندی پر اتفاق کیا گیا ہے۔
تاہم سکیورٹی فورسز یا حکومتی اداروں کی جانب سے اس فائر بندی پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔