اسلام آباد دھماکہ کیس میں مصنوعی ذہانت سے مدد لے رہے ہیں: پولیس

صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے 92 فوٹیجز اکٹھی کی گئی ہیں تاکہ خودکش دھماکے کی تحقیقات میں مدد لی جا سکے۔

اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نے اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں منگل کو ضلعی کچہری کے باہر خودکش دھماکے کے حوالے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے 92 فوٹیجز اکٹھی کی گئی ہیں تاکہ خودکش دھماکے کی تحقیقات میں مدد لی جا سکے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں آٹھ کلو گرام تک بارودی مواد اور بال بیرنگز استعمال کیے گئے، جب کہ اب تک کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور صرف ایک ہی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کے ہینڈلر سے متعلق معلومات کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ ’ایک موٹر سائیکل اور ایک گاڑی کو مشکوک تصور کیا جا رہا ہے، کیمروں کی بیک ٹریکنگ کی جا رہی ہے تاکہ شواہد اکٹھے کیے جا سکیں۔‘

آئی جی نے مزید بتایا کہ فرانزک ماہرین، سی ٹی ڈی، انویسٹی گیشن ٹیم، سیف سٹی پروجیکٹ اور حساس ادارے مل کر شواہد کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان باشندوں کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز کیے جا رہے ہیں، اور اس وقت ملک بھر میں ہونے والے 45 فیصد آپریشنز صرف اسلام آباد میں ہو رہے ہیں۔

آئی جی کے مطابق تحقیقاتی ادارے مختلف پہلوؤں سے تفتیش کر رہے ہیں اور جلد ہی حتمی نتائج سامنے آنے کی امید ہے۔

قبل ازیں پاکستان کے وزیر داخلہ سید محسن نقوی نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ جی الیون میں ضلعی کچہری کے باہر خودکش دھماکے کم از کم 12 افراد جان سے گئے جب کہ 22 زخمی ہوئے۔

 دھماکہ کچہری کے مرکزی دروازے کے عین باہر ہوا اور وہاں کھڑی گاڑیوں میں آگ لگ گئی اور انہیں نقصان پہنچا۔

جس وقت یہ دھماکہ ہوا کچہری میں معمول کے مطابق بڑی تعداد میں وکلا اور سائلین موجود تھے۔ زخمیوں کو فوری طور پر اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز منتقل کیا گیا۔

اب تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ افغان حکومت نے بھی ایک بیان میں اس واقعے میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل ناصر زیدی کے ہمراہ کچہری پہنچے اور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خودکش بمبار کچہری کے اندر داخل ہونا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہ ہونے پر اس نے پولیس گاڑی کے قریب دھماکہ کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کی شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ معلومات میڈیا سے شیئر کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے تمام گاڑیوں پر ای ٹیگ لازمی قرار دیا جائے گا اور اس کے لیے مالکان کو دو ہفتوں کا وقت دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محسن نقوی نے کہا کہ ’آج کا بلاسٹ اسلام آباد میں ہونا، اس موقعے پر ہونا، اس وقت ہونا، اس کے بہت میسیجز ہیں۔ میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جو انڈینز کرتے ہیں کہ بلاسٹ ہوتا نہیں ہے اس سے ایک گھنٹہ پہلے پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ہم پورے شواہد اور تفصیل کے ساتھ جائیں گے۔ ایک چیز میں بتا دوں کہ جو جو اس میں ملوث ہے، چاہے یہاں کے لوکل لوگ ہوں گے، یا دوسرے ملک کے لوگ ہوں گے، ہم کسی کو سپیئر نہیں کریں گے‘ (کسی کو چھوڑیں گے نہیں)۔

حال ہی میں ملک کے کئی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم اسلام آباد کافی عرصے سے ایسے حملوں سے محفوظ تھا۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ایک بیان میں اسلام آباد ڈسٹرکٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہونے والے خودکش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ دہشت گرد عناصر پاکستان کے امن و استحکام کے دشمن ہیں۔‘

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’وطنِ عزیز سے بیرونی پشت پناہی میں سرگرم دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کیا جانا ضروری ہے۔‘

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے بھی حملے کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی ہے۔

انہوں نے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی اور انہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی۔

انہوں نے اس حملے کا الزام ’انڈین دہشت گرد پراکسیوں‘ پر عائد کیا۔ انہوں نے واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی اور کہا کہ ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔ ’دہشت گردی کے عفریت کے مکمل خاتمے اور فتنہ الہندوستان و فتنہ الخوارج کے آخری دہشت گرد کی سرکوبی تک ان کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔‘

یہ خودکش حملہ ایک ایسے وقت ہوا جب اسلام آباد میں دو بڑی کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیم راولپنڈی میں پاکستان کے ساتھ ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیل رہی ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ ’ہم حالت جنگ میں ہیں، کوئی یہ سمجھے کہ پاک فوج یہ جنگ افغان پاکستان سرحدی علاقے میں اور بلوچستان کے دور دراز علاقے میں لڑرہی ہے تو آج اسلام آباد ضلع کچہری میں خود کش حملہ wake up call ہے۔

’یہ سارے پاکستان کی جنگ ہے جس میں پاک فوج روز قربانیاں دے رہی ھے اور عوام کو تحفظ کا احساس دلا رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس ماحول میں کابل حکمرانوں سے کامیاب مذاکرات سے زیادہ امید رکھنا عبث ہو گا۔ کابل حکمران پاکستان میں دہشت گردی کو روک سکتے ہیں لیکن اسلام آباد تک اس جنگ کو لانا کابل سے ایک پیغام ہے جس کا پاکستان بھرپور جواب دینے کی الحمدللہ قوت رکھتا ہے۔‘

ایک روز قبل پیر کو جنوبی وزیرستان کے مرکز وانا میں فوج کے زیرانتظام کیڈٹ کالج پر خودکش بمباروں نے حملہ کیا تھا تاہم حکومت کے مطابق اس حملے کو ناکام بناتے ہوئے دونوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ تاہم وہاں کارروائی ابھی جاری ہے۔

خیبرپختونخوا اور سندھ کے وزرائے اعلی کی جانب سے بھی اس حملے پر تشویش اور دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان