ماجدہ خورشید: ہمت ہو تو کم تعلیم یافتہ طبقہ بھی باکمال بن سکتا ہے

ایک باہمت خاتون کی کہانی جو ہزاروں خواتین کو ہنر سکھا کر ان کی زندگیاں بہتر بنا چکی ہیں۔

ماجدہ خورشید (درمیان) اکتوبر 2025 میں کراچی میں اپنی ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں (شیما صدیقی)

اگر ہم خواتین کی حقیقی بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں ٹیکنالوجی اور فنی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا بھی ہو گا اور لڑکیوں کے والدین کو سمجھانا بھی پڑے گا کہ آنے والا دور فنی تعلیم اور سافٹ سکلز کی اہمیت کو دنیا تسلیم کر رہی ہے۔ پاکستانی خواتین باہمت بھی ہیں اور باعمل بھی، وہ اس سمت میں خود کو منوا لیں گی۔

یہ جملے ایک باہمت اور باعمل پاکستانی خاتون ماجدہ خورشید کے ہیں۔ انہوں نے پہلے اپنی زندگی بہتر سے بہترین بنائی، پھر پچھلے 14 سال سے کئی ہزار خواتین و حضرات کی زندگیاں بہتر بنا چکی ہیں۔ 12 سال تک میمن انڈسٹریل اینڈ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کی سربراہ رہیں۔ اب پچھلے دو سال سے ’ہنرکدہ پاکستان‘ کی روح و رواں ہیں۔ جہدِ مسلسل اور لگن پر یقین رکھتی ہیں اور خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر کامیاب ہوتے دیکھنے میں حقیقی خوشی محسوس کرتی ہیں۔

پاکستان میں ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، لیکن عمومی تاثر یہ ہے کہ اس دن صرف حقوق کی پکار مچتی ہے۔ ہم بحیثیتِ قوم ان دنوں میں صرف باتیں کرتے نظر آتے ہیں، بہتر زندگی کے راستوں کا ذکر کم ہوتا ہے۔ آئیے ماجدہ خورشید کی کہانی سنتے ہیں کہ ان کی زندگی کیسے گزری اور انہوں نے کس طرح دوسری لڑکیوں کی زندگیاں تبدیل کیں۔

زندگی جہدِ مسلسل کے نام

ماجدہ کی زندگی میں کئی ایسے موڑ آئے جب سب کچھ ایک دم پلٹ گیا۔ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ زندگی کا دوسرا سال کراچی میں گزرا۔ بڑے گھر سے کرائے کے مکان میں آئیں لیکن زندگی بہتر رہی۔ انٹر میں تھیں کہ والد ایسے بیمار ہوئے کہ بستر سے لگ گئے۔

وہ بتاتی ہیں: ’ہم نو بہن بھائی تھے۔ ڈاکٹر بننے کا خواب لے کر سرسید کالج میں داخلہ لیا۔ میں ذہین بھی تھی۔ ابھی دوسرا ہی سال تھا کہ زندگی کی ٹرین کا ٹریک بدلنا پڑا کیونکہ اچانک والد بیمار ہو کر بستر سے جا لگے۔ کوئی بھائی ابھی اتنا بڑا نہیں تھا جو ابا کا کام سنبھالتا اور والدہ تو کاروبار سے نابلد تھیں۔ والد بیمار ہوئے تو معلوم ہوا کہ اگلے مہینے کا خرچ نہیں ہے۔ سب بچے پرائیویٹ سکول اور کالج میں تھے اور گھر بھی کرائے کا تھا، یعنی زندگی 365 ڈگری پر مُڑ چکی تھی۔ اس کے بعد کے 10 سال کتنے محنت طلب تھے اور کتنی جفاکشی مانگتے تھے، ہم بہن بھائی ہی جانتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اگلی تین عیدوں تک ہم نے کپڑے نہیں بنائے۔

ہم سب بہن بھائی تعلیم کے ساتھ میدانِ عمل میں آ چکے تھے۔ کوئی اخبار ڈالنے لگا، کوئی صبح خود پڑھتا اور دوپہر کے سکول میں پڑھاتا۔ ایک بھائی میڈیکل ریپ بن گیا۔ مجھے انٹر کے بعد اندازہ ہو چکا تھا کہ اب ریگولر کالج نہیں چل سکتا، لہٰذا میں نے صبح سکول میں پڑھانا شروع کیا اور شام میں ٹیوشن دیتی۔ ہم سب نے تعلیم کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رکھا۔ بی کام پرائیویٹ میں داخلہ بھی لے لیا۔ میں نے اردو بازار سے پرانی کتابیں لے لیں اور پھر 12 بجے سے 2 بجے تک پڑھتی تھی۔ یہ 10 سال کیسے گزرے، ہم بہن بھائی نہیں جانتے۔ میرا بی کام کا نتیجہ بہت اچھا آیا۔ ایک بھائی باہر گیا تو کچھ گھر کے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور والد کی طبیعت بھی کچھ سنبھلی تو ان پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ بچیوں کی شادیاں کرنا ہیں۔‘

شادی کے آٹھ سال بعد تعلیم کا نیا سلسلہ

وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں: ’آج سوچوں تو مجھے خواب دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ خواب تو تھے مگر فرصت نہیں تھی۔ میری اکثر سہیلیاں ڈاکٹر بن چکی تھیں مگر میں شادی ہو کر کورنگی میں کے الیکٹرک کی کالونی میں آ گئی۔ اس سارے عرصے میں میری خواہشیں ایسی نہیں رہیں کہ کپڑے بنوالوں یا سونا لے لوں، کیونکہ دیکھ چکی تھی کہ یہ چیزیں کام نہیں آتیں۔ میرے نزدیک ان کی اہمیت نہیں رہی تھی۔ میں لوگوں سے گھلتی ملتی تھی۔

میرا گھر وہ تھا جہاں کالونی کا ہر فرد اپنا مسئلہ لے کر آتا۔ شادی کے چھ سے آٹھ سال بعد جب ایک روٹین بن گئی تو میں بیمار ہونا شروع ہو گئی۔ ایک وقت تھا کہ دن رات کی تمیز کے بغیر کام کیا تھا اور اب تین بچوں کے بعد وقت ہی وقت تھا۔ کبھی سر میں درد، کبھی کمر دُکھتی۔ یہاں میاں نے ہمت بندھائی کہ تم ایک بار پھر اپنی تعلیم شروع کرو۔ میں زور دے کر کہوں گی کہ اگر گھر والے ساتھ دیں تو ہر عورت باعزت روزگار اپنا سکتی ہے۔ میں نے بھی ہمت کی اور جامعہ کراچی میں داخلہ لیا۔ اس نے میرے ذہن کو پھر سے کھول دیا۔‘

ہمت اور بروقت فیصلے اثر انداز ہوتے ہیں

’ایک طرف تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا تھا۔ بھائی نے مشورہ دیا کہ کوئی ہنر سیکھوں اور پھر آسٹریلیا آ جاؤں۔ بھیجی ہوئی فہرست میں مجھے بیوٹیفیکیشن کا کورس پسند آیا۔ میں نے پرائیویٹ ماسٹر بھی کیا اور بیوٹی پارلر کا ڈپلومہ بھی۔ پہلے ایک سال کا کورس کیا، پھر ایک ایڈوانس کورس بھی کر لیا۔ میں بس سے آتی جاتی تھی لیکن تھکن نہیں تھی، شوق تھا۔ گھر والے کہتے تھے کہ کیا کھانے کو نہیں، کیوں اتنی محنت کر رہی ہو۔‘

’یہ سلسلہ پہلے مصروفیت کے لیے اور پھر امیگریشن کے لیے شروع کیا مگر میری طبیعت میں تھا کہ بے کار نہیں بیٹھنا۔ میں نے اخبار میں لکھنا بھی شروع کر دیا۔ ایک بیوٹیشن کا بین الاقوامی کورس بھی کیا۔ مہنگا کورس تھا، فیس بھائی نے ادا کی۔ یہ کورس پاکستان میں کراتے نہیں تھے۔ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مسلسل رابطہ رکھا کہ میں بہتر نتیجہ دوں گی۔ اس کورس کے بعد میں پاکستان کی پہلی خاتون بیوٹیشن تھی جس کے پاس یہ سرٹیفکیٹ تھا کہ میں دنیا میں کہیں بھی اپنا سیلون شروع کر سکتی ہوں۔‘

رکاوٹ آئے گی، مگر نکلنا آپ نے ہے

2008’  میں میں نے اپنے گھر پر ہی سیلون شروع کر لیا۔ اسی زمانے میں کورنگی میں میمن انڈسٹریل اینڈ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کھل رہا تھا۔ میں نے بیوٹی ڈپارٹمنٹ میں سربراہ کے لیے درخواست دے دی۔ میرا وہاں جانا ہوا تو میں نے براہِ راست پوچھ لیا کہ درخواست کا کیا ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ میری درخواست نظرانداز نہیں ہو گی۔ میں انتظار کرتی رہی کہ مینیجمنٹ سے مل کر جاؤں گی۔ ایک گھنٹے بعد مجھے بلا لیا گیا۔ پوچھا گیا کہ کیا ڈیمانڈ کریں گی۔ میں نے کہا: ’مجھے ڈیمانڈ نہیں کرنی۔ میں آپ کا سیکشن بنا دوں گی، سسٹم بنا دوں گی۔‘ مجھے 12 ہزار میں چار گھنٹے کے لیے رکھ لیا گیا۔ پیسے زیادہ نہیں تھے، مگر خوش تھی کہ پٹرول کے پیسے نکل آئیں گے۔‘

’یہ میرے لیے ایک چیلنج تھا۔ ٹرینرز نہیں مل رہے تھے۔ کچھ دوستوں کو بلایا۔ 10 دن ہم لوگوں کو راغب کرتے رہے کہ کورس کتنا اہم ہے۔ پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ابتدا چار گھنٹے سے کی تھی، مگر کام بڑھتا گیا۔ چار گھنٹے سے پورا دن اور پھر پورا ہفتہ وہیں گزرنے لگا۔ 2010 میں ہمارا پہلا بیچ 1200 طالبات پر مشتمل تھا۔ پھر سلسلہ چل نکلا۔ میرے آخری بیچ تک 35 ہزار لڑکیاں مختلف کورسز مکمل کر چکی تھیں۔‘

این جی اوز پاکستانی معاشرے کو سمجھیں

ماجدہ کہتی ہیں: ’دنیا میں گھنٹوں کے حساب سے کام ہوتا ہے، ہمارے ہاں پورے دن کی بات کی جاتی ہے۔ میں نے خواتین کو انسٹیٹیوٹ تک لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک ماں کے پاس بچوں کے بعد ہی وقت بچتا ہے، اس لیے اوقاتِ کار میں نرمی کی۔ صبح، دوپہر اور سہ پہر کے کورسز رکھے۔ میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ ہماری خواتین بہت آگے تک گئیں۔ میں نے 12 سال میمن فاؤنڈیشن کو دیے۔ سوچ یہی تھی کہ لڑکیاں آگے بڑھیں، کیونکہ ہم نے اوقات کی سہولت دی اور سمجھا کہ یہ بچیاں اور مائیں پورے دن کے لیے نہیں آ سکتیں۔‘

’جب ہم نے ادارہ شروع کیا تو کراچی کے حالات اچھے نہیں تھے۔ ایک واقعہ سنیں۔ ایک لڑکی آئی۔ کہنے لگی ہمارے پاس کھانے کو نہیں ہوتا تو ہمارے والد ہمیں ’سونے‘ کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ میں سمجھ نہ سکی۔ میں نے کہا گھر میں جگہ نہیں تو پڑوس میں چلی جایا کرو۔ اس نے کہا نہیں، ہمیں ’سونے‘ کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ میں نے تین بار یہی پوچھا۔ آخر اس کی آنکھوں میں دیکھا تو سمجھ آئی۔ میں اپنے دفتر آ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ جب بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تو کوئی رشتہ قائم نہیں رہتا، کوئی قدر باقی نہیں رہتی۔ یہی سوچ تھی کہ انہیں سنبھالنا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس 70 فیصد خواتین کمزور طبقے سے آتی ہیں۔ باپ دہاڑی دار، چار پانچ بچے۔ اکثر لڑکیوں کی تعلیم پوری نہیں ہوتی۔ ہم ان بچیوں کو بہتے دریا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اردگرد ہزاروں خواہشیں، ایسا ماحول کہ اگر آپ کسی چیز کے خریدار نہیں بن سکتے تو غلط راستے اختیار کر لیں۔ ہاتھ پکڑ کر غلط راہوں پر لے جانے والے بہت ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لڑکیاں سکول اور کالج نہیں پہنچ سکیں، گھر میں بھی نظرانداز رہیں۔ معاشی طور پر کمزور گھرانوں کی اکثر لڑکیاں قرآن اور نماز تک نہیں جانتیں۔ ابراہیم حیدری میں بچہ بچہ گٹکا کھا رہا ہے۔ ایک لڑکی کے منہ سے سن کر میں حیران رہ گئی کہ ’ایک پان کے پیچھے ایک رات تو دینا پڑتی ہے‘۔ 12 سال میں نے بہت سی بچیوں کو بنتے دیکھا۔ ایک بچی یاد ہے، نو عمری میں شادی اور طلاق ہو گئی۔ بچہ لے کر وہ ادارے آتی تھی۔ جب اپنا کام شروع کیا تو اچھا رشتہ بھی آ گیا۔ خالی پیٹ کھانا مانگتا ہے۔ حکومت کا کام اپنی جگہ ہے، بحیثیتِ معاشرہ ہمارا بھی فرض ہے۔ میمن کے چیئرمین کہا کرتے تھے: ’ایک دن مچھلی کھلانے سے بہتر ہے کہ انہیں مچھلی پکڑنا سکھا دو۔‘

معاشرے نے رکاوٹیں ڈالیں

’ابتدا میں بحیثیتِ خاتون مجھے مدد کم ملی۔ خواتین آسان ہدف ہوتی ہیں۔ کچھ نہ ملا تو کردار پر انگلی اٹھا لو۔ میرے پاس شادی کی سند تھی، اس لیے ایسے معاملات میں ’شٹ اپ کال‘ دینا آسان تھا۔ خاتون کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ دیکھ بھال کر زندگی آگے بڑھانا چاہیے۔ میں نے آسٹریلیا اور پھر امریکہ کی سکالرشپ ٹریننگ لی۔ وہاں کے چیلنج الگ تھے اور ہمارے ہاں الگ مسائل۔ اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ ہماری لڑکیاں گروم ہو کر نکلتی ہیں۔ پاکستانی خواتین کام کرتی ہیں اور اچھا کام کرتی ہیں۔ یہ 54 فیصد خواتین آگے آئیں گی تو اچھے لیڈر سامنے آئیں گے۔ ہمارے سامنے حضرت خدیجہ الکبریٰ اور حضرت عائشہؓ کے نمونے موجود ہیں۔‘

’ہنرکدہ میں اس وقت افغان پناہ گزین خواتین کی ٹریننگ چل رہی ہے۔ جب ان کے بزرگ بھی یہاں آئے تو میں نے پوچھا: ’اگر آپ کی پانچ بچیاں ہیں، نہ تعلیم ہے نہ ہنر، زندگی موت کا بھروسا بھی نہیں، تو کیا آپ نے ان کے لیے کوئی حلال روزگار سوچا ہے؟ کوئی ایسا ہنر دلوائیں کہ وہ گھر بیٹھے بھی کما سکیں۔‘‘

’میں نے 12 سال میمن میں کام کیا۔ وہاں تمام سیکشن بن گئے تھے، اس لیے میں نے اپنے کام کو آگے بڑھانے کا سوچا۔ ہنر فاؤنڈیشن پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے، یہ بھی کورنگی میں ہے۔ 2023 میں پاکستان کے ریجنل ہیڈ کے طور پر ہنر فاؤنڈیشن میں کام شروع کیا۔ یہاں خواتین کی تعداد کم تھی۔ یہاں کے چیلنج الگ تھے۔ تین سال سے یہاں ہوں۔ یہ ادارہ 2008 میں بنا۔ ان کے 16 مراکز ہیں۔ بلوچستان میں بھی ہنرکدہ موجود ہے۔ ہم ریکوڈک اور خاران میں بھی کام کر رہے ہیں۔ 40 مختلف کورسز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ خواتین کے لیے بھی، مردوں کے لیے بھی اور کچھ دونوں کے لیے۔ اب ہمیں بھی چیزیں سب کے لیے کھولنی ہوں گی۔‘

’ہم مردوں کے لیے سلائی کڑھائی کے ساتھ بیوٹیفکیشن کے کورسز بھی دے رہے ہیں۔ نیشنل ٹیکنیکل اینڈ وکیشنل فریم ورک 2015 میں بنا۔ میں اس پروگرام کا حصہ تھی۔ پاکستان میں آٹھ درجے طے ہوئے، نصاب سے لے کر ٹریننگ تک۔‘

’لاتعداد کامیاب کہانیاں ہیں۔ ایک بچی نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا کورس کیا۔ شوہر کو پسند نہیں تھا، اس نے شوق روکے رکھا۔ پھر شوہر کی نوکری چلی گئی۔ کووڈ کے دن تھے۔ بچی نے سوچا کہ میاں کو پلمبنگ آتی ہے۔ اس کا پیج بنایا اور کام مانگا۔ پہلے ہی ماہ 60 ہزار کا کام ملا۔ ہنرمندی کبھی ضائع نہیں جاتی۔ شوہر بہت خوش تھا، ہمارے پاس شکریہ ادا کرنے آیا۔‘

برینڈ ایمبیسیڈر

’پچھلے ہفتے ایک بچی میرے پاس آئی۔ کہنے لگی، ’مجھے پہچانا؟‘ مجھے یاد نہ آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ چھ ماہ پہلے آئی تھی اور بیوٹیشن کورس کرنا چاہتی تھی مگر سکالرشپ ختم ہو چکی تھی۔ آپ نے پوچھا تھا: ’آگے کام کرو گی؟‘ میں نے کہا تھا: ’ہاں۔‘ اس نے ٹریننگ مکمل کی اور آج ایک اسٹور پر برانڈ ایمبیسیڈر ہے۔

یہ وہ بچیاں ہیں جو پہلے دن سوچتی تھیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ اورنگی ٹاؤن میں ہمارا دوسرا بیچ ہے۔ بچیاں کما رہی ہیں۔ ہم جہاں 40 کورسز آفر کرتے ہیں وہیں سافٹ سکلز کی ٹریننگ بھی دیتے ہیں۔ انٹرپرینیورشپ، فائنینشل لٹریسی، کمپیوٹر اور بنیادی انگریزی کی تربیت تاکہ بچی ٹریننگ کے بعد اپنے کام کو آگے بڑھا سکے۔‘

’ہم بیوٹی کی ٹریننگ والوں سے کہتے ہیں کہ ایک کرسی اور آئینے سے کام شروع کریں۔ ڈیجیٹل ٹریننگ سے بھی آپ کم سرمائے میں روزگار بڑھا سکتے ہیں۔ گیر فاؤنڈیشن کے تحت بلاسود قرضہ دیا جا رہا ہے۔ مختلف انٹرویوز کے بعد رقم دی جاتی ہے۔ اخوت بھی ہمارے بچوں کو سرمایہ فراہم کر رہی ہے۔ وہ خود طے کرتے ہیں کہ رقم کیسے لوٹائیں گے۔ سکل انکیوبیشن سینٹر ہنر فاؤنڈیشن کے پاس ہے۔ ہم بزنس پلان سکھاتے ہیں۔ بچیاں اپنے آئیڈیاز بہتر بنا کر ڈونر کے پاس لے جاتی ہیں۔ ڈونرز شارک ٹینک کی طرز پر فنڈ دیتے ہیں۔ ہماری 12 بچیوں کو فنڈ مل چکا ہے۔ ہم نے ایک پورا نظام بنا دیا ہے تاکہ بچیاں اپنی زندگیاں بہتر بنا سکیں۔‘

’لڑکیوں کو اورنگی اور لڑکوں کو کورنگی میں افغان پناہ گزینوں کو فنی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ ان افغانوں کے لیے ہے جن کے پاس کارڈ موجود ہے۔ اس کمیونٹی کو معاش کے بڑے مسائل ہیں، اس لیے ٹریننگ دی جائے اور اپنا کام کریں۔ ٹریننگ کے ساتھ انٹرن شپ بھی کرائی جا رہی ہے۔ جو نوجوان کام کرنا چاہتے ہیں انہیں ہر ممکن مدد دی جا رہی ہے۔ ہم اب مانٹیسوری ٹریننگ بھی مہیا کر رہے ہیں تاکہ وہ ٹرینڈ ٹیچر کے طور پر آگے بڑھیں۔‘

’ووکیشنل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ہمارے ہاں پسندیدہ موضوع نہیں۔ لوگ اسے مجبوری میں اپناتے ہیں۔ جب کوئی بچی تعلیم حاصل نہ کر سکے تو وہ تربیت حاصل کر لے۔ پوری دنیا میں سکلڈ ورکرز کی ضرورت رہتی ہے۔ جس کے پاس ہنر ہوتا ہے وہ بھوکا نہیں سوتا۔‘

’مجھے کہا گیا تھا کہ نائی بنے گی۔ اب اس تصور کو ختم کرنا ہو گا۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک بزنس ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ٹریننگ کرے، پھر ایڈوانس ٹریننگ کرے اور اپنے روزگار کو بڑھائے۔ میں ان سب کی ماں ہوں اور ماں کے دو ہی کام ہوتے ہیں، محبت اور تحفظ فراہم کرنا۔ خواتین لیڈروں کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ