’کبھی لوگ ہنستے تھے، مذاق اڑاتے تھے کہ یہ لڑکی کیا کرے گی؟ لیکن آج وہی لوگ میرے پاس آ کر کہتے ہیں: ہمارا پنکھا نہیں چل رہا، ذرا دیکھ لیں!‘
یہ کہانی ہے سندھ کے ضلع میرپور خاص کی فوزیہ کی، جو پیدائشی طور پر ٹھیک طرح سے چلنے سے قاصر ہیں، مگر ہمت میں کسی سے کم نہیں۔
جب سب نے کہا کہ ’یہ کام مردوں کا ہے،‘ میرپور خاص کی تحصیل شجاع آباد کے گوٹھ ہوت خان لغاری کی رہائشی فوزیہ نے ہار نہیں مانی، انہوں نے سولر ٹیکنیشن کی ٹریننگ لی اور آج نہ صرف اپنے گاؤں کی پہلی خاتون سولر ٹیکنیشن کے طور پر کام کر کے اپنا گھر چلا رہی ہیں بلکہ اپنے گاؤں کی دیگر خواتین کے لیے بھی ایک مثال بن چکی ہیں۔
فوزیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پہلے ان کے پاس کوئی ہنر نہیں تھا جس سے وہ روزگار کما سکیں۔ ’میں ایک معذور ہوں، پہلے سوچتی تھی کہ میں کیا کر سکتی ہوں، لیکن سول سوسائٹی سپورٹ پروگرام (سی ایس ایس پی) والوں نے ہمیں 2024 میں سولر پینل ٹیکنیشن کی تربیت دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ٹریننگ شروع ہونے سے قبل انہوں نے اپنے شوہر، بھائیوں اور والدہ سے مشورہ کیا، مگر سب نے یہی کہا کہ ’یہ لڑکوں کا کام ہے، عورتوں کا نہیں۔‘
فوزیہ کے مطابق: ’میں نے کسی کی بات نہیں مانی اور تین ماہ کی ٹریننگ مکمل کی۔‘
تربیت مکمل ہونے کے بعد فوزیہ نے اپنے علاقے میں چھوٹے پیمانے پر سولر پینل لگانے اور مرمت کا کام شروع کیا۔
’ہم سولر پلیٹ لگانے، بلب اور پنکھے کا کنکشن خود کر لیتے ہیں۔ اب ہمیں آرڈر بھی مل رہے ہیں۔ وہی گاؤں والے جو پہلے باتیں بناتے تھے کہ آپ لوگ کام نہیں کر سکتیں، آج وہی بلاتے ہیں کہ ہمارا پنکھا نہیں چل رہا یا بیٹری میں فالٹ آ گیا ہے۔‘
فوزیہ نے بتایا کہ وہ اب 70 ہزار روپے تک کے ٹھیکے بھی اٹھاتی ہیں اور ان کا گزر بسر بہتر ہو چکا ہے۔ ’میرا کام چل رہا ہے، بچے اچھے سکول میں پڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے فخر سے کہا: ’میں نے اتنی عزت کمائی ہے کہ جو لوگ کبھی مذاق اڑاتے تھے، آج وہی ہماری مدد مانگتے ہیں۔‘