تنہا چھوڑے گئے جانوروں کی دردناک، دل دہلا دینے والی چیخوں کے درمیان، 29 سالہ موسیقی کی گریجویٹ فیون میلیسے ادیس ابابا میں ہزاروں آوارہ کتوں کے لیے زندگی کی امید بن گئی ہیں۔
انہوں نے شہر کے مضافات میں ایک منفرد پناہ گاہ قائم کی ہے، جہاں چالیس کتوں کو خوراک اور رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہر ہفتے تقریباً سات سو مزید کتوں کو سڑکوں پر بھی کھانا کھلاتی ہیں۔
گذشتہ دو سالوں میں میلیسے نے 300 سے زائد کتوں کو نئے گھر فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہم عمر نوجوان جانوروں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں کے ساتھ مل کر، وہ ایتھوپیا کے عام تصور کو چیلنج کر رہی ہیں جو کتوں کو محض محافظ سمجھتا ہے۔ وہ انہیں پسندیدہ پالتو جانور کے طور پر تسلیم کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جیسے جیسے ادیس ابابا میں سکائے سکریپر عمارتیں بلند ہو رہی ہیں، تقریباً دو لاکھ بے گھر بھٹکتے کتوں کی پناہ گاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ کئی کتوں کے مالکان نے اپارٹمنٹ میں پالتو جانور نہ رکھنے کی مالکان کی پالیسی کی وجہ سے انہیں ترک کر دیا ہے۔
حکام نے ریبیز جیسے بیماریوں کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حالیہ مہینوں میں ایک مقامی شخص کو کتے کے کاٹنے کے واقعے کے بعد بڑے ایونٹس سے پہلے ہزاروں آوارہ کتوں کو زہر دے کر مارنے پر تنقید کا سامنا کیا ہے۔
میلیسے کا کہنا ہے کہ ایتھوپیا میں کئی لوگ کتوں کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھتے اور جب انہیں کوئی پریشانی پیش آتی ہے تو انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ایتھوپیا میں، معاشرہ سمجھتا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، کیا یہ (کتے) بھوکے ہیں؟ کیا انہیں احساس ہوتا ہے؟ انہیں پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کھاتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ بیمار ہوتے ہیں، تو انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔
میلیسے کی اگرچہ چھوٹی اور عارضی پناہ گاہ، سڑک کے حادثات سے بچ جانے والے کتوں کے لیے بھی محفوظ مقام ہے۔ ان میں سے ایک، کونجت — جس کے نام کا مطلب امہاری (ایتھوپیا کی سرکاری زبان) میں ’خوبصورت‘ ہے — گلے میں سپورٹ کے لیے بریس پہنے ہوئے ہے، اور جب میلیسے اسے گود میں لیتی ہے تو وہ دم ہلاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میلیسے نے بتایا کہ وہ بچپن میں ادیس ابابا میں آوارہ کتوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور پانچ ایسے کتے جو ان کے گھر آ کر بس گئے انہیں کے پاس رہ گئے۔
انہوں نے کہا: ’میری ماں غصے میں آ گئی اور انہیں واپس گلی میں دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن وہ بار بار واپس آ جاتے اور میں انہیں رکھ لیتی تھی۔‘
ادیس ابابا کے کچھ رہائشی کہتے ہیں کہ وہ آوارہ کتوں کی وجہ سے پیدا خطرات سے پریشان ہیں اور جانوروں کو پناہ گاہ میں رکھنا چاہیے۔
یونس بیزاباہی نے کہا: ’یہ (کتے) لوگوں کو سڑک پر گزرنے نہیں دیتے اور جارحانہ ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ کاٹ بھی سکتے ہیں۔ یہ معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہیں، کیونکہ ان کے مالکان کا پتہ نہیں ہے۔ کوئی بھی رات کو اس راستے سے محفوظ گزر نہیں سکتا۔‘
ادیس ابابا کی شہری انتظامیہ کے افسر، میلیسے انشبھو، نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حکومت کتے رجسٹر کرنے اور ویکسین لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ ان کے مالکان کی مکمل ذمہ داری یقینی بنائی جا سکے۔
انہوں نے کہا: ’جن کے بظاہر کوئی مالک نہیں، ہم انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے کی کوشش کریں گے اور کچھ آوارہ کتے جن میں وائرس کی علامات ظاہر ہوں گی، انہیں ختم کرنا پڑے گا۔
ایک ویٹرنری ڈاکٹر، ڈاکٹر الازار آییلے، نے کہا کہ ریبیز ادیس ابابا میں ایک سنجیدہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے اور ویکسی نیشن، نس بندی اور پناہ گاہ فراہم کرنے کے وسائل اب بھی بہت محدود ہیں، جس پر انہیں تشویش ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں منظم، انسانی طریقہ کار، زیادہ ویکسینز، تربیت یافتہ ویٹرنری ڈاکٹرز اور کمیونٹی کی تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں اور جانوروں دونوں کی حفاظت کی جا سکے۔‘
میلیسے کی دوست لونا سولومون ہفتے میں کئی بار رضاکارانہ طور پر پناہ گاہ میں آتی ہے تاکہ کتوں کو کھانا کھلائے اور ان کا چیک اپ کرے جنہیں ممکنہ طور پر ویٹرنری کی ضرورت ہو۔
سولومون نے کہا کہ بہت سے مالک (فیل میل) کتوں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ افزائش نسل کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’لوگ عام طور پر کتیوں کو نہیں اپناتے کیونکہ انہیں پالنے کی بہت ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ بہت ہوتا ہے۔ نیز وہ ان کے بچوں کی پیدائش سے نمٹنا نہیں چاہتے۔‘
بیرک دی جینے اپنی ساتھی مکینوں کی کتے کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے جب اپنے کتے کے لیے ایک نیا گھر ڈھونڈ رہے تھے تو ان کا میلیسے سے سوشل میڈیا پر رابطہ ہوا۔
اب وہ ہر ہفتے پناہ گاہ آ کر زوسے نامی اپنے کتے کو دیکھتے ہیں اور رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔
دی جینے نے کہا کہ کئی لوگ کتوں کو اپنے محافظ سمجھتے ہیں لیکن اکثر مالکان کی طرف سے جوابی لگاؤ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا: ’کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ انہیں صرف اپنے فائدے کے لیے رکھتے ہیں، اسی لیے ہم اس بارے میں تھوڑی سی آگاہی دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا میلیسے اور ان کے دوست سوشل میڈیا اور ادیس ابابا کی گلیوں میں کتوں کے حقوں کے لیے لڑتے رہیں گے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن، نس بندی کے پروگرامز اور اپنانے کے لیے مراعات فراہم کرنے پر غور کرے گی تاکہ آوارہ کتوں کو گھر میں دوسرا موقع ملے۔
© The Independent