’ایلسا کو میں نے اس وقت بچایا تھا جب وہ بالکل چھوٹی سی تھی اور اس پر سے گاڑی گزر گئی تھی۔ اسے مکمل صحت یاب ہونے میں تقریباً آٹھ ماہ لگے تھے۔‘
یہ کہنا تھا اسلام آباد کے مضافات میں آوارہ کتوں کی پناہ گاہ کے سربراہ میجر (ر) ڈاکٹر غنی اکرام کا، جو ایلسا نامی کتیا کو گود میں اٹھائے یاد کرتے ہیں کہ کیسے سات سال قبل اس آوارہ جانور کو نہایت بری حالت میں اسلام آباد کی گلیوں سے ریسکیو کیا گیا تھا۔
’گاڑی کے ساتھ حادثے میں ایلسا بری طرح زخمی تھی اور ہم نے اس کا مختلف جگہوں پر لمبا علاج کروایا اور اسے زندہ رہنے کے قابل بنایا۔‘
ڈاکٹر غنی اکرام کے وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں گذشتہ تین سال سے آوارہ کتوں کے شیلٹر کو، جس میں اس وقت ڈیڑھ سو سے زیادہ جانور موجود ہیں، اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے بندش کا خطرہ ہے۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے 12 ستمبر کو اس شیلٹر کو اچانک سِیل کر دیا تھا۔
بند کرنے کی وجوہات اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں ’قیمتوں میں اضافہ/کھانے یا صفائی کے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی جس وجہ سے شیلٹر کو سیل کرنا پڑا‘ درج ہیں۔
تاہم شیلٹر ہوم انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ ڈاکٹر غنی اکرام کے مطابق کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامہ دکھانے پر محض چند گھنٹوں بعد شیلٹر کو کھول دیا گیا۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ شیلٹر کو ڈی سِیل کرنے کے ساتھ ہی اسے سات روز میں مکمل طور پر بند کرنے کا زبانی حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔
’یہ شیلٹر ایلسا جیسے کئی کتوں کا گھر ہے، جسے انتظامیہ نے سات روز میں خالی کرنے کا کہا ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب شیلٹر کی جگہ کے کاغذات موجود ہیں اور وہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں تو کس قانون کے تحت اسے سیل کیا گیا؟
آوارہ کتوں کے شیلٹر کے سربراہ نے کہا کہ ’میرے پاس سی ڈی اے کا این او سی بھی موجود ہے لیکن پھر بھی میرے عملے کو ہراساں کیا گیا۔
’ابھی تک سِیل کرنے کے ایک کاغذ کے علاوہ انتظامیہ نے ایک بھی کاغذ مجھے ارسال نہیں کیا۔‘
تاہم ڈاکٹر غنی کہتے ہیں کہ ان کے شیلٹر میں چار سے پانچ سٹاف ممبر ہر وقت موجود رہتے ہیں، جن میں ویٹرنری ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر نے شیلٹر کو سیل اور بند کیے جانے کے احکامات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
یہ شیلٹر اسلام آباد میں آوارہ کتوں کے لیے قائم چند شیلٹرز میں سے ایک ہے، جہاں کئی معذور زخمی کتوں کے علاوہ بیمار اور چھوٹی عمر کے کتوں کو بھی رکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اکرام غنی کا کہنا ہے کہ ’یہاں تمام کتے ویکسین شدہ ہیں اور ایک سال سے بڑی عمر کے نیوٹرڈ ہیں۔ ان میں کئی کتے معذور ہیں جو باہر زندگی نہیں گزار سکتے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں اسلام آباد کی انتظامیہ اور سی ڈی اے کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیے لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک جواب موصول نہیں ہوا۔
وفاقی دارالحکومت کی گلیوں میں بڑی تعداد میں کتوں کی موجودگی میں ایسے اداروں کو بند کرنے پر شہری حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مقامی انتظامیہ خود بھی ایک ایسا سینٹر چلاتی ہے لیکن وہاں بھی سہولیات کی عدم موجودگی اور بدانتظامی کی خبریں وقتا فوقتا سامنے آتی رپتی ہیں۔