انڈیا کی ریاست راجستھان کے کئی گاؤں اب ’بیواؤں کے گاؤں‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں، جہاں خطرناک سلیکا کانوں نے مردوں کی جانیں لے لی ہیں اور خواتین کو اپنی اور بچوں کی زندگی چلانے کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
سیلیکوسس پھیپھڑوں کی ایک سنگین بیماری ہے جو کرسٹل لائن سلیکا دھول کو سانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے، جو پھیپھڑوں کے مستقل داغ کا باعث بنتی ہے۔ اس بیماری کی علامات میں مستقل کھانسی، سانس کی قلت، اور کمزوری شامل ہیں جو وقت گزربے کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک ناقابل واپسی حالت ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے، لہذا کان کنی، تعمیرات اور سینڈ بلاسٹنگ جیسی ملازمتوں میں کام کرنے والوں کے لیے روک تھام ضروری قرار دیا جاتا ہے۔
سینکڑوں مزدور روزانہ ان وسیع ریت پتھر کی کانوں میں محنت کرتے اور پتھر، ریت اور کوارٹز کے دھول میں سانس لیتے ہیں۔ اس دھول کے مستقل اثر سے سلیکوسس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے، جو مہلک اور ناقابل علاج ہے۔
یہ گاؤں صرف یورپ کے لیے ریت پتھر برآمد کرنے کے مراکز ہی نہیں بلکہ غم اور مشکلات کے مراکز بھی بن چکے ہیں۔
راجستھان، شمالی ریاست جہاں یہ کانیں واقع ہیں، میں 33,000 سے زیادہ کانیں ہیں، جو کسی بھی ریاست میں سب سے زیادہ ہیں، جن میں تقریباً 25 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔
2018 سے جنوری 2023 کے درمیان ریاست میں 31,869 تصدیق شدہ سلیکوسس کے کیسز رپورٹ ہوئے، مگر ہزاروں دیگر کیسز ابھی بھی ٹیسٹ کے بغیر ہیں۔
ماہرین کے مطابق اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔
بہت سی خواتین، جن کے شوہر سلیکوسس کے سبب جان سے جا چکے ہیں، اب خود کانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ان دیہاتوں میں رہنے والی بیوائیں سخت حالات میں زندگی گزار رہی ہیں، جنہیں بچوں کو پالنے تقریباً 200 روپے کی دہاڑی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
40 سالہ سپنا، جو کئی سالوں سے ان کانوں میں کام کر رہی ہیں، خواتین کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میرے شوہر ریت کی کان میں کام کرتے تھے اور انہیں سلیکوسس ہو گیا۔ میری بیٹی بھی اس بیماری کا شکار ہوئی اور شادی کے بعد فوت ہو گئی۔
’بچوں کی کفالت کے لیے میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم ماہانہ تقریباً 9,000 روپے کماتے ہیں، مگر معمولی زخمی ہونے پر بھی تنخواہ نہیں ملتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد توقیف، ضلع کوآرڈینیٹر، مائن لیبر پروٹیکشن کمپین بحران کی شدت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ گاؤں میں تقریباً 70۔80 فیصد بیوائیں سلیکوسس کا شکار ہیں لیکن کانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کانوں کے مالک کسی قسم کا حفاظتی سامان فراہم نہیں کرتے۔ منہ پر کپڑا باندھنا بھی کم تحفظ دیتا ہے۔ صرف 5۔10 سال کام کرنے کے بعد ہی دھول پھیپھڑوں میں جا کر سلیکوسس پیدا کر دیتی ہے، جو ناقابل علاج ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ خشک ڈریلنگ جیسے عمل، بغیر پانی کے، کارکنوں کو باریک سلیکا دھول کے زیادہ قریب لے آتا ہے، جس سے وہ اس بیماری کے لیے خاص طور پر حساس ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ 2019 سے راجستھان حکومت نے سلیکوسس کے مریضوں اور بیواؤں کے لیے مالی امداد فراہم کی ہے، بہت سے افراد ابھی تک کچھ وصول نہیں کر سکے۔
ماہرین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ فوری حفاظتی اقدامات، ٹیسٹنگ، اور بروقت مالی امداد ناگزیر ہیں تاکہ ہزاروں بیوائیں اس خطرناک اور مہلک کام کے چکر سے محفوظ رہ سکیں۔