ڈپٹی کمشنر سکھر نادر شہزاد کے مطابق سندھ حکومت نے اروڑ کے تاریخی کالکا ماتا مندر کے تحفظ کے لیے اس سے ملحق ملحقہ 124 ایکڑ رقبے کی لیز منسوخ کر دی ہے جب کہ قریب موجود چار کرش پلانٹس کی سرگرمیوں اور کن کنی کو بھی فی الوقت روک دیا گیا ہے۔
پٹے پر لی گئی علاقے میں موجود پہاڑوں سے چونے کا پتھر نکالا جا رہا تھا۔
ڈپٹی کمشنر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علاقے میں جاری بلاسٹنگ سے تاریخی پہاڑی سلسلے اور مذہبی مقامات کو نقصان پہنچنے کے خدشات کے باعث لیز منسوخ کی گئی۔ حکومت اس علاقے کو محفوظ زون قرار دینے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہاں موجود آثار قدیمہ اور مذہمی مقامات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
محکمہ مائنز اینڈ منرلز سندھ کے ڈائریکٹر عمران میمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اروڑ کے پہاڑی سلسلے میں قدیم دور سے لائم سٹون کی کان کنی جاری ہے۔ یہاں کا علاقہ کئی کلومیٹر پر محیط ہے جو سکھر، روہڑی، اروڑ اور خیرپور تک پھیلا ہوا ہے۔ صرف اروڑ کے علاقے میں تقریباً 25 مقامات سے لائم سٹون نکالا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا: ’حکومت نے مندر کے قریب واقع سائٹس پر سرگرمیوں کو عارضی طور پر روک دیا ہے اور مندر کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں واقع چار سائٹس کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔ باقی سائٹس پر ایس او پیز کے مطابق کام کی اجازت ہے، جس کی محکمہ مائنز و منرل کی ٹیم نگرانی کر رہی ہے۔‘
کالکا ماتا مندر کے پجاری مہش کمار نے بتایا کہ یہ ہندو برادری کے لیے ایک مقدس مقام ہے ۔ یہ مندر ایک پہاڑی غار کے اندر واقع ہے اور اپنی قدامت، تعمیراتی انفرادیت اور مذہبی اہمیت کی بدولت بر صغیر پاک و ہند کے چند منفرد مذہبی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مندر صرف ہندو برادری کا مقدس مرکز نہیں بلکہ سندھ کی مشترکہ مذہبی رواداری کی بھی علامت ہے۔‘
مرکزی مندر کا حصہ غار جیسا ہے اور دیوی کی مورتی قدرتی پتھر سے تراشی گئی ہے۔ روزانہ درجنوں ہندو یہاں آتے ہیں جب کہ ماہانہ اور ہفتہ وار خصوصی پوجا ہوتی ہے جس میں دور دراز سے یاتری آتے ہیں۔
بارود کی مدد سے کی جانے والی بلاسٹنگ کی وجہ سے یاتریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مندر کے خدمتگار امر لعل نے گفتگو میں بتایا کہ جب پہاڑوں میں دھماکے ہوتے ہیں تو پورا علاقہ لرز اٹھتا ہے۔ بچے ڈر جاتے تھے اور کئی بار پتھر گرنے سے مندر کے اندر خوفناک صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔ ’ہم نے حکومت سے بارہا اپیل کی کہ مندر کو محفوظ بنایا جائے اور اب خوشی ہے کہ بالآخر کارروائی ہوئی ہے۔ اس فیصلے پر ہم حکومت کے مشکور ہیں۔‘
مندر کا تاریخی پس منظر
محقق سید امداد حسین شاہ کے مطابق اروڑ قدیم سندھ کا دارالحکومت رہ چکا ہے 19 ویں صدی کے وسط یعنی 1840 کے بعد انگریز دور میں جب سکھر بیراج، ریلوے لائن اور دیگر تعمیرات کا آغاز ہوا تو انہی پہاڑوں سے بڑے پیمانے پر پتھر نکالا گیا۔
1923 میں بیراج کی تعمیر کے دوران لاکھوں ٹن پتھر نکالا گیا اور بعد میں روہڑی سیمنٹ فیکٹری کو بھی یہی علاقہ لیز پر دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’صدیوں پرانے اس علاقے میں تاریخی، مذہبی اور ثقافتی مقامات کی بڑی تعداد موجود ہے جنہیں اب ماحولیاتی اور انسانی سرگرمیوں سے خطرات لاحق ہیں۔‘
سماجی رہنما اور سابق یو سی ناظم اروڑ سید ارشد حسین شاہ نے کہا کہ بلاسٹنگ سے نہ صرف پہاڑوں کی ساخت متاثر ہو رہی ہے بلکہ گردوغبار اور شور نے قریبی آبادیوں میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’علاقے کے درجنوں دیہات متاثرہوئے ہیں۔ دھماکوں سے اٹھنے والی گرد سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔ یہ پہاڑ کبھی سندھ کے قدرتی حسن کی علامت تھے لیکن اب ان کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔‘
سکھر ہندو پنچائت کے مکھی ایشو ر لعل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت سندھ کے مشکور ہیں جس نے اس مسئلے پر ایکشن لیتے ہوئے اس بے رحمانہ کام کو رکوایا۔ یہ مقام نہ صرف ہندو برادری کے لئے مقدس ہے بلکہ یہاں ہندو مسلم بھائی چارے کی ایک قدیم روشن مثال قائم ہے۔ ان کے مطابق: ’یہاں نہ مندر سے کسی مسلمان کو مسئلہ ہوا اور نہ مسجد سے ہندو برادری کو کوئی تکلیف پہنچی ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اروڑ کے تاریخی پہاڑی سلسلے کو قومی ورثہ قرار دیا جائے تاکہ اسے مستقل طور پر محفوظ بنایا جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگر کسی مقام کو قومی ورثہ قراردے دیا جائے تو قانون کے مطابق ایسے مقامات پر کسی بھی قسم کی کان کنی، بلاسٹنگ یا تعمیراتی سرگرمی پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ اس جگہ کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ قانون شکنی کی صورت میں جرمانہ یا قید کی سزا دی جا سکتی ہے،جب کہ محکمہ آثارِ قدیمہ و ثقافت سندھ ان مقامات کی دیکھ بھال، بحالی اور نگرانی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
سماجی کارکن عبدالستار زنگیجو کا کہنا تھا کہ اگرچہ مندر کے تحفظ کے لیے حکومت کا اقدام خوش آئند ہے مگر یہ کافی نہیں۔ یہاں کئی لیز ہولڈرز برسوں سے کام کر رہے ہیں جنہیں مقامی سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان سرگرمیوں نے ماحول، مقامی زندگی اور تاریخی ورثے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف مستقل بنیادوں پر کارروائی کرے۔