سکھوں کے لیے کرتارپورہ منظور، ہندوؤں کے لیے مندر کیوں نامنظور؟

اقتدار کے مرکز اسلام آباد میں ہندو دھرم کی عبادت گاہ مندر کی تعمیر کے جواز و عدم جواز پہ مباحث کا اک سلسلہ چل نکلا ہے۔ آئیے تجزیے سے ذرا قبل خبر کے پس منظر میں جھانکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب واقع گردوارہ دربار صاحب (اے ایف پی)

گُزرے دو ہفتوں سے ایک خبر پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اقتدار کے مرکز اسلام آباد میں ہندو دھرم کی عبادت گاہ مندر کی تعمیر کے جواز و عدم جواز پہ مباحث کا اک سلسلہ چل نکلا ہے۔ آئیے تجزیے سے ذرا قبل خبر کے پس منظر میں جھانکتے ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ 2015 میں ’اسلام آباد ہندو پنچایت‘ کے نام سے اک تنظیم قائم ہوئی۔ جس کے بنیادی مقاصد میں اسلام آباد میں آباد ہندو خاندانوں کے حقوق کا تحفظ شامل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس وقت دارالحکومت میں قریب ڈیڑھ دو سو ہندو خاندان آباد ہیں۔ جن کی آبادی لگ بھگ تین ہزار بنتی ہے جنہیں اپنے مذہب میں بیان طریقے کے مطابق پوجا پاٹ واسطے مندر، ہولی کی خوشی منانے کے لیے کھلی جگہ اور میت کی آخری رسومات کی ادائیگی واسطے شمشان گھاٹ کی اشد ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو کے آخری دور حکومت میں بھی اسلام آباد کی ہندو کمیونٹی نے مندر کے لیے جگہ کے حصول واسطے درخواست گزاری تھی مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ 2016 میں ہندو پنچایت نے ہیومن رائٹس کمیشن کو جگہ کے حصول واسطے عرضی دی۔

2017 میں ہیومن رائٹس کمیشن اور وزارت مذہبی امور نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو سفارش کی کہ ہندو پنچایت کو مندر بنانے کے واسطے اراضی الاٹ کی جائے۔ سی ڈی اے نے سفارش منظور کرتے ہوئے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن ٹو میں ہندو پنچایت کو چار کنال کا پلاٹ الاٹ کر دیا۔ چار کنال پر ایک کمپلیکس بنانے کی تجویز زیر غور تھی جس میں مندر، شمشان گھاٹ، مہمان خانہ اور پارکنگ واسطے جگہ مختص کی جانی تھی۔ حال ہی میں پلاٹ کا قبضہ ملتے ہی ہندو پنچایت نے اپنے وسائل سے چار دیواری کا کام شروع کر دیا۔

کمپلیکس کی تعمیر واسطے ہندو پنچایت کے پاس خاطر خواہ رقم نہیں تھی، تبھی پنچایت نے وفاقی وزیر مذہبی امور سے رقم کی فراہمی کی التجا کی۔ وفاقی وزیر نے حکومتی تعاون کی یقین دہائی کرائی اور دس کروڑ روپے کے فنڈز کی فراہمی کی تجویز وزیر اعظم کو بھیج دی گئی۔ پلاٹ کا قبضہ ملنے اور رقم کی فراہمی کی یقین دہانی سے ہندو دھرم کے پاکستانی باسیوں میں خوشی ومسرت کی اک لہر دوڑ گئی۔ مگر خوشی کی یہ خبر عارضی ثابت ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہوا یوں کہ وزیر اعظم عمران خان کو سمری ارسال ہوتے ہی الیکٹرانک و سوشل میڈیا پہ کہرام بپا ہو گیا۔ چہار جانب سے ہندو دھرم کے بارے میں فکری یلغار شروع ہو گئی۔ ایسا طوفان اٹھایا گیا کہ معقول آوازیں دَبتی چلی گئیں۔ عشروں سے قائم لاہور کے جامعہ اشرفیہ نے مندر کی تعمیر کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا۔ ’غیرتِ ایمانی‘ کے حامل چند وکلا مندر کی تعمیر رکوانے واسطے عدل کا دروازہ پیٹتے دکھائی دیے۔

چہار سو گونجتے غوغا سے گھبرا کر سی ڈی اے نے مندر کی چار دیواری کی تعمیر رکوا دی۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی نظریاتی کونسل سے اس باب میں رائے طلب کر لی کہ آیا غیر مسلموں کی عبادت گاہ کی تعمیر واسطے سرکاری خزانے سے روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔

اب ذرا ان سوالات اور مغالطوں پر نظر دوڑاتے ہیں جو خبر سامنے آتے ہی بطور دلیل مندر کی تعمیر کے خلاف استعمال ہونے لگے:

یہ سوال تواتر سے اُٹھایا جا رہا ہے کہ اسلام کے نام پر بنے ملک میں ہندوؤں کی عبادت کی خاطر نئے مندر کی تعمیر بھلا کیسے ممکن ہے؟

اس ضمن میں یہ اصولی بات یاد رکھنی چاہیے کہ وطن عزیز پاکستان جنگ و جدل سے نہیں بلکہ صلح کے اصول پر باہمی معاہدے سے قائم ہوا۔ جس میں بسنے والے مختلف دھرموں کے لوگوں کو برابر کا شہری تسلیم کیا گیا۔ دستور پاکستان میں اقلیتوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی بلکہ انہیں برابر کے شہری حقوق بھی مہیا کیے گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب آئین پاکستان میں تمام شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اقلیت میں شمار ہندو دھرم کے لوگ مذہبی آزادی کے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہوئے مندر تعمیر نہیں کر سکتے؟ جب آئین پاکستان انہیں مذہبی آزادی مہیا کرتا ہے کیوں ایک مخصوص طبقہ مندر کی تعمیر پر طوفان کھڑا کیے ہوئے ہے؟

یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ ایک ایسے ملک میں بت کدہ کیسے تعمیر ہو سکتا ہے جس کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر ہو؟ یہ مفروضہ سراسر دو قومی نظریے کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ دو قومی نظریہ سے مراد ہے کہ مسلمان تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی حوالے سے ایک مکمل و الگ قوم ہیں۔ جن کے سیاسی، سماجی، تقافتی اور معاشی حقوق ہندوؤں سے جدا ہیں۔ دو قومی نظریے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہندو دھرم کے پاکستانی باسیوں سے دشمنی پال لی جائے اور انہیں پاکستان میں جینے کے حق سے محروم کر کے نکال باہر کیا جائے۔

کہیں کہیں سے ایسی آوازیں بھی سُننے کو ملتی ہیں کہ ہندوؤں کے دیس بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں بہ زورِ بازو گرائی جا رہی ہیں اور ادھر اکثریتی مسلم ملک میں ہندوؤں کی عبادت واسطے بت کدے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

اس ضمن میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ظالم کے ظلم کو بنیاد بنا کر اگر آپ بھی ناجائز اور غلط ہتھکنڈے برتیں گے تو ان میں اور آپ میں کیا فرق رہ جائے گا؟ گر بھارت میں اقلیتوں سے برا برتاؤ روا رکھا جا رہا ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم بھی اس کی دیکھا دیکھی اپنی طرف کی اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیں۔ اس تناظر میں بطور مسلم سماج ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم حسن اخلاق اور رواداری کا ایسا مظاہرہ کریں کہ ہماری طرف کی اقلیتیں عزت و افتخار کے ساتھ پاکستانی شہری ہونے پہ فخر کر سکیں۔

ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اسلامی مملکت کے سرکاری خزانے سے بت کدے کی تعمیر جائز کیسے ہو سکتی ہے؟ جیسا کہ خان سرکار نے اسلامی نظریاتی کونسل سے اس حوالے سے رہنمائی بھی طلب کی ہے اور ظاہر ہے اس باب میں سرکار کی شرعی رہنمائی تو اسلامی نظریاتی کونسل ہی کرے گی، مگر اس پہلو پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ جب ریاست کی نگاہ میں برابر کے شہری ہونے کے ناتے ہندو حصہ بقدر جثہ کے تحت ریاست کو ٹیکس دیتے ہیں تو کیا ان کا یہ حق نہیں کہ وہ ریاست سے عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے معاونت حاصل کر سکیں؟

اسلامی نظریاتی کونسل کو مندر کی تعمیر میں سرکاری خزانے سے رقم کی فراہمی پر رہنمائی کرتے ہوئے اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے تھا کہ بھارتی پراپیگینڈے اور مغربی میڈیا کے زیر اثر عالمی حلقوں میں پاکستان سے متعلق مذہبی بنیادوں پر تفریق کا منفی تاثر پھیل چکا ہے۔

عالمی سطح پہ پھیلے منفی تاثر اور پراپیگینڈے کا توڑ کر تے ہوئے خان سرکار نے پچھلے برس ہی بھارتی سکھوں کی پاکستان میں ان کے مقدس مقام تک رسائی واسطے سرکاری خزانے سے خاطر خواہ رقم خرچ کر کے کرتا پورراہداری تعمیر کی، جس سے سکھ زائرین کو اپنے مقدس مقام کی زیارت کے لیے سرحد عبور کر کے آنے میں آسانی ہو گئی ہے۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق اس راہداری پر 16 ارب روپے خرچ ہوئے مگر حیرت کی بات ہے کہ کسی مذہبی یا سیاسی حلقے نے اس پر واویلا نہیں مچایا، نہ کسی نے عدالت کا رخ کیا۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر خان سرکار بھارت میں آباد سکھوں کے لیے قومی خزانے سے اربوں خرچ کر کے راہداری کھول سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں شعوری طور بر بسنے والے ہندو دھرم کے باسیوں واسطے سرکاری خرچ پہ عبادت گاہ تعمیر نہیں ہو سکتی؟

کرتاپورراہداری کے قیام سے عالمی سطح پہ نہ صرف پاکستان کے اس اقدام کی تحسین ہوئی بلکہ منفی تاثر کی برف بھی پگھلتی محسوس ہوئی۔

ایسے سَمے جبکہ مودی کے بھارت میں اقلیتوں پہ زمین تنگ کی جا رہی ہے، چند ریاستوں میں اقلیتوں کی نہ صرف شناخت مٹائی جا رہی ہے بلکہ ان کی شہریت تک پہ سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان کے پاکستان میں اقلیتوں واسطے اعلیٰ ظرفی اور وسیع انظری کا مظاہرہ پہلے سے بڑھ کر سامنے آئے۔

مندر کی سرکاری خرچ پر تعمیر سے ایک تو عالمی سطح پہ پاکستان کا مذہبی بنیادوں پہ تفریق کا بگڑا ہوا امیج سنورے گا، دوسرا یہ اقدام پاکستان کے باسی ہندوؤں میں تحفظ، برابری کا احساس اور پاکستانی ہونے پر فخر کا جذبہ بھی پیدا کرے گا۔

نوٹ: اگر آپ بھی اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تحریر[email protected]  پر بھیج دیجیے)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ