عزت زبردستی نہں کروائی جا سکتی۔
انسان میں پائے جانے والے تمام جذبوں میں سے عزت وہ چیز ہے جسے ڈنڈے کے زور پہ کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
قانون کی عزت کریں، استاد کی عزت کریں، ماں باپ کی عزت کریں، بڑوں کی عزت کریں ۔۔۔ کریں ۔۔۔ کرنے اور کروانے پہ زور دیتے دیتے عمر گزر گئی لیکن آج بیٹھا تو اچانک خیال آیا کہ عزت تو اندر سے پیدا ہوتی ہے، اسے کہہ کہہ کے، بار بار یاد دلا کے، جبراً کیسے کروایا جا سکتا ہے؟
مجھ سے اگر کوئی بات کرتا ہے، مجھے ’آپ‘ کہتا ہے، تمیز سے بات کرتا ہے، تو یہ میرے سفید بالوں کا لحاظ ہو گا، دفتر میں ہوں تو سنیارٹی کی وجہ سے ہو گا لیکن اس کا مطلب میں یہ کیسے نکال سکتا ہوں کہ ’آپ‘ کہنے والے کے دل میں عزت بھی باقاعدہ پائی جا رہی ہے؟
عزت کا احساس بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ہو سکتا ہے۔ جیسے میں اگر کسی کی دل سے عزت کرتا ہوں تو اسے جھک کے ملوں گا، قریبی رشتہ ہے تو گرم جوشی سے گلے لگاؤں گا، مجھے علم ہو گا اس انسان کی پسند ناپسند کیا ہے، میں کوشش کروں گا کہ ہر اس چیز کا دھیان کروں جو اسے تکلیف دے سکتی ہے، تو ۔۔۔ یقینی طور پہ میں اسے زیادہ سے زیادہ آرام دینے کی کوشش کروں گا۔
اگر مجھے کوئی ایسا کام کرنا پڑے جو اس شخص کے لیے تکلیف کا باعث ہے، تو میں پوری کوشش کروں گا کہ اول تو کروں ہی نہ، کر جاؤں تو ایسے کہ اسے پتہ نہ چلے، اور پھر بار بار وہی کام میں ہرگز نہیں کروں گا۔
جیسے امی کو میرے ہاتھوں میں کڑے پسند نہیں ہیں، شروع میں ان کے پاس جاتا تھا تو وہ زبرستی اتروا دیتی تھیں، پھر ملتان گیا تو خود ہی اتار کے چلا گیا، دو چار بار اترے تو پھر دل سے اتر گئے، بات ختم ہو گئی۔ ابا ہیں، ان کی نیند کچی ہوتی ہے، تو بچپن سے آج تک وہ جب بھی سو رہے ہوں ہم سب کوشش کرتے ہیں کہ دروازے اور انسانوں کی ’چوں‘ تک کم سے کم نکلے۔
تو عزت جو ہے وہ بہت زیادہ چھوٹی باتیں دل سے ماننے کے بعد پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ جذبہ کیسے کمایا جائے کہ آپ کے لیے کوئی انسان ان سب باریک باتوں کا خیال رکھے، یہ میرا خیال ہے قسمت کی گیم ہے۔
یوں سمجھ لیں فارمولا کوئی نہیں، جیسے میں جن لوگوں کی دل سے عزت کرتا ہوں اس کے پیچھے بظاہر بہت معمولی سی باتیں تھیں۔
عثمان میرا دوست ہے، اس کے ابو تھے، افضل انصاری صاحب، اب یہ 96 کی بات ہے، میٹرک کے دنوں کی، ہم لوگ اتنے ہی لفنگے تھے جتنا کوئی اس عمر میں ہو سکتا ہے۔ عثمان کے ابو ہماری سب حرکتیں جانتے تھے لیکن جب بھی میں اس کے گھر جاتا اور عثمان نہ ہوتا تو انکل خود دروازہ کھولتے، بٹھاتے ڈرائنگ روم میں، کھانے کا پوچھتے، چائے بھجواتے ۔۔۔ ان کے کسی ایک تاثر سے بھی ایسا نہیں لگتا تھا جیسے وہ ہم لوگوں سے تنگ ہیں ۔۔۔ وہ شفقت کا انسانی نمونہ تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سر مہر نیاز تھے، یہ بھی اسی دور کی بات ہے، کیمسٹری کا ایک لفظ پلے نہیں پڑتا تھا، میں نکما ترین سٹوڈنٹ تھا لیکن مہر صاحب نے خدا جانے کیسے بغیر مار پیٹ کے پڑھا دیا، میٹرک میں نمبر بھی اچھے آ گئے، اب غور کرتا ہوں تو دل سے ان کی عزت کرنے کی واحد وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ ہنسی مذاق میں بات کر لیتے تھے، غصہ یا نفرت انگیز قسم کی ریگولر استادوں والی حرکتیں نہیں کرتے تھے۔ ان کا مجھ پر احسان ہے۔
پھر ایک کیٹیگری ان دوستوں کی ہے جو عمر میں کم از کم مجھ سے چھ آٹھ سال بڑے تھے، گوہر بھائی، وسیم بھائی، شہزاد بھائی ۔۔۔ یہ بھائی لوگ وہ تھے جن کے ساتھ محلے میں بچپن گزرا میرا، ان کی بھی دل سے عزت کرتا ہوں میں، وسیم بھائی اپنے ٹیپ ریکارڈ پہ مجھے نئے گانوں کی کیسٹ بھر دیتے تھے، گوہر بھائی جلوس مجلس میں ساتھ لے جاتے تھے، کاواساکی تھی ان کے پاس، شہزاد بھائی نے باقاعدہ ڈھائی تین مہینے میں پڑھا کے مجھے ایف اے کروا دیا ۔۔۔ تو ایسے بہت سے لوگ ہیں۔
اب ان کا اور ان جیسے بے شمار لوگوں کا رویہ جب میں سوچتا ہوں تو ایک یہی بات سمجھ آتی ہے کہ عزت کمانے کا واحد طریقہ شفقت، مہربانی، درگزر یا نرم دلی کا رویہ ہے۔
بنیا گُڑ نہ دے، گڑ جیسی بات تو کرے، وہ محاورہ شاید اسی لیے بنا تھا کہ لین دین میں بھی کام آپ کریں یا نہ کریں کم از کم بات تمیز سے، اخلاق سے کر لیں تو سامنے والا عزت کا احساس لیے جائے گا اور جواباً آپ کی عزت بہرحال قائم رہے گی۔
قانون کی عزت، استاد کی عزت، ماں باپ کی عزت، بڑوں کی عزت یا کسی بھی قسم کی عزت ہو، قائم تب ہو گی جب اس کی مثال بچے کو، بڑے کو، عملاً دی جائے گی، اور یقیناً بغیرعزت دیے، عزت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
اب اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک باعزت انسان ہیں تو سوچ لیں کہ اس میں ڈر یا روپے پیسے کا عمل دخل کتنا ہے اور آپ کے انسانی رویے کا ہاتھ کتنا!
خدا عزتیں قائم رکھے! بھرم بنائے رکھے!