حکیم سعید کو کس نے قتل کیا؟ 28 سال بعد بھی سوالیہ نشان

17 اکتوبر 1998 کو کراچی میں حکیم محمد سعید کے قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والے تمام ملزمان بے قصور تھے تو پھر ذمہ دار کون تھا؟ اور جو قصور وار تھے، وہ کیوں پکڑے نہیں گئے؟ حکیم سعید کی برسی پر خصوصی تحریر

ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی اور سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو کراچی میں قتل کر دیا گیا تھا  (ہمدرد نونہال ویب سائٹ)

سال تھا 1998، تاریخ 17 اکتوبر، دن ہفتے کا اور دوپہر ایک بجے کا وقت تھا۔ سکول کی چھٹی کے بعد ہم سہیلیاں وین میں آ کر بیٹھیں۔ شدید گرمی میں پسینے میں شرابور سب کا برا حال تھا۔ ایسے میں اخبار والے کی آواز آئی: ’حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔‘

آواز سنتے ہی میں دھک سے رہ گئی۔ ہائے یہ کیا ہوا؟ آنکھیں یکایک آنسوؤں سے بھر گئیں۔ ابھی کل 16 اکتوبر کو شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے حوالے سے ہمدرد نونہال اسمبلی کا اجلاس ہوا تھا، جس میں حکیم صاحب سے پیار بھری تھپکی وصول کی تھی۔ پیار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ارے، ہماری بیٹی بینش اتنی بڑی ہو گئی؟‘

وہ ہر ماہ اسمبلی اجلاس میں اسی پیار سے ملتے، خصوصاً وہ بچے جو تقاریر میں حصہ لیتے، ان کی خصوصی شفقت سے سیراب ہوتے۔ روزانہ سیکڑوں لوگوں سے ملنے کے باوجود، وہ جنہیں دنیا جانتی تھی، وہ ہمیں ایسے پہچانتے کہ اپنے اوپر ناز ہونے لگتا۔

حکیم محمد سعید کون تھے؟

سفید شیروانی، سفید علی گڑھ کَٹ پاجامہ، سفید ہی جوتا، سیاہ جناح کیپ۔ کوئی بچہ انہیں دیکھتا تو فرشتہ ہی سمجھتا۔ وہ واقعی فرشتے ہی تھے۔ ملنے جلنے، اخلاق و انکسار، خاطر تواضع اور حفظِ مراتب میں مکمل مشرقی، علوم کی جدتوں کو قبول کرنے میں پورے جدید۔ طبیب، مصنف، دانشور، منتظم، سیاح، صنعت کار، باعمل مسلمان اور سچے پاکستانی۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی گھرانہ ہو جو ’ہمدرد‘ اور حکیم محمد سعید کو نہ جانتا ہو۔

علی الصبح اٹھنے والے حکیم محمد سعید تہجد اور نماز سے فراغت کے بعد سورج نکلنے سے پہلے اپنے مطب میں ہوتے تھے۔ صبح چھے سے شام پانچ بجے تک مطب کرنا ان کے معمول کا حصہ تھا۔ مطب کو وہ عبادت سمجھ کر کرتے تھے، اسی لیے ہمیشہ باوضو اور روزے کی حالت میں ہوتے تھے۔ عبادت کی نیت تھی، اسی لیے انہوں نے علاج کی مد میں ضرورت مند مریضوں سے کبھی ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا۔

جب وہ وزیر اور گورنر بنے تو ان کے مریضوں کو بہت مایوسی ہوئی کہ اب حکیم صاحب مطب کرنا چھوڑ دیں گے، لیکن انہوں نے وزارت اور گورنری کے دور میں بھی مطب کرنا چھوڑا، نہ ہی بزمِ ہمدرد سجانی چھوڑی۔

’پاکستان سے محبت کرو، پاکستان کی تعمیر کرو‘ یہ سلوگن ہمدرد فاؤنڈیشن کی پہچان بنا۔ ان کی زندگی کا مقصد پاکستان سے محبت اور پاکستان کی تعمیر تھا۔ حکیم سعید کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ وہ قوم کے سچے مسیحا تھے۔

حکیم سعید کا بچپن

9  جنوری 1920 کو پرانی دلی کے علاقے حوضِ قاضی میں پیدا ہونے والے محمد سعید کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جس کی علاقے ہی نہیں پورے شہر میں شہرت تھی۔ ان کے والد حافظ حکیم عبدالمجید نے 1906 میں ’ہمدرد دواخانہ‘ کی بنیاد رکھی۔

صرف دو برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی تعلیم و تربیت میں والدہ رابعہ بیگم کے ساتھ بڑے بھائی حکیم عبدالحمید کا بڑا حصہ تھا، جنہوں نے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ صرف چھ برس کی عمر میں قرآن پاک مکمل کیا اور نو برس کی عمر میں حافظِ قرآن بننے کی سعادت حاصل ہو گئی۔

حکیم عبدالحمید کی سختیوں کے باوجود محمد سعید کا بچپن شرارتیں اور کھیل کود کرتے گزرا۔ پہلوانوں کے اکھاڑے میں بھرپور کسرتیں کیں، شہ سواری بھی کی اور دہلی کی مشہور فٹ بال ٹیم کے فعال کھلاڑی بن گئے۔ بڑے بھائی نے جب ان کی کھیلوں اور شرارتوں میں حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی دیکھی تو رویے میں سختی بڑھا دی۔ ساتھ ہی مشغلے ترک کر کے خاندانی روایات کے تحت طبی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔

1940 میں طبیہ کالج دہلی میں تعلیم کا آغاز کیا اور چند ہی برسوں میں حکمت کی تعلیم مکمل کرکے بھائی کے ساتھ مل کر ہمدرد کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹایا۔ یوں چند ہی برسوں میں ادارہ ہندوستان بھر میں اپنا نام اور ساکھ بنا چکا تھا۔

ادھر پاکستان کا قیام عمل میں آیا، ادھر حکیم محمد سعید پاکستان پہنچے۔ ابتدائی چھ ماہ شدید مالی پریشانیوں میں گزرے۔ جون 1948 کو آرام باغ میں کرائے کے ایک کمرے سے ہمدرد پاکستان کا آغاز ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے معیار کی بدولت ساکھ بنا لی۔ 1966 میں ان کی طبی اور تعلیمی خدمات کے طفیل انہیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

تعلیمی، طبی اور سماجی خدمات

ہمدرد نونہال ہو یا روح افزا، ہمدرد ہر پاکستانی کے گھر کا حصہ ہے۔ حکیم صاحب نے ہمدرد فاؤنڈیشن سے جو کمایا اسے مکمل طور پر پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اسے مکمل بیان کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔

آپ نے غور کیا ہوگا کہ دیگر انڈسٹریز کی طرح ادارے کا نام ’ہمدرد پرائیوٹ لمیٹڈ‘ نہیں بلکہ ’ہمدرد (وقف) پاکستان‘ لکھا جاتا ہے۔ دراصل ہمدرد انڈسٹریز کی ساری کمائی پاکستان میں فلاحی کاموں پر خرچ کی جاتی ہے۔ ادارے کا ’مالک‘ بھی دراصل اپنے ادارے میں بحیثیت ملازم کام کرتا ہے۔ ایسا بے مثال ادارہ پاکستان میں تو دوسرا کوئی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں بھی شاذ و نادر ہی ایسی کوئی مثال نظر آتی ہے۔

حکیم محمد سعید نے ’مدینۃ العلم‘ کے نام سے شہرِ علم بسایا، جہاں جامعہ ہمدرد اور ہمدرد پبلک سکول، ہمدرد ویلیج سکول قائم ہیں۔ اس کے علاوہ ہمدرد کالج آف میڈیسن، کالج آف ایسٹرن میڈیسن، ہمدرد سکول آف لا سمیت متعدد تعلیمی ادارے ہمدرد کی شان بڑھا رہے ہیں۔

1961 میں ’شامِ ہمدرد‘ کا آغاز ہوا جسے 90 کی دہائی میں ’ہمدرد مجلسِ شوریٰ‘ کا نام دیا گیا، جبکہ مستقبل کے معماروں کے لیے ’بزمِ ہمدرد نونہال‘ کے نام سے ماہانہ بنیادوں پر تقریبات کا آغاز کیا گیا، جسے 9 جنوری 1995 کو ’ہمدرد نونہال اسمبلی‘ کا نام دیا گیا۔ ملک کے چار بڑے شہروں کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں منعقد ہونے والے یہ پروگرام بچوں بڑوں میں یکساں مقبول رہے ہیں اور آج بھی جاری ہیں۔

90 کی دہائی وہ دور تھا جب کراچی میں آئے روز کی ہڑتالیں اور قتل و غارت گری کا طوفان برپا تھا۔ اس کے باوجود ہمدرد کا کوئی پروگرام کبھی ایک منٹ بھی تاخیر سے شروع نہیں ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ حکیم محمد سعید کو دیکھ کر لوگ اپنی گھڑی کی سوئیاں درست کر لیتے تھے۔ ادھر گھڑی کی سوئی تین بجاتی، ادھر سفید براق شیروانی میں ملبوس حکیم سعید ہال میں داخل ہوتے اور پروگرام آرگنائزر تصویر حسین حمیدی اعلان کرتے: ’وقت اللہ کی امانت ہے، اس کا صحیح استعمال عبادت ہے۔‘

ہال تالیوں سے گونج اٹھتا اور سب کھڑے ہو کر حکیم صاحب کا استقبال کرتے۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ مقررین کے بعد ٹیبلوز کا وقت شروع ہوتا اور حکیم سعید بچوں میں بچے بن جاتے۔ سٹیج کے ساتھ بچوں کا رش لگا ہوتا اور حکیم صاحب بھی درمیان میں کسی بچے کو گود میں لے کر فرش پر بیٹھ جاتے۔ بچوں سے وہ حد درجہ محبت کرتے، اسی لیے تو انہیں ’قائدِ نونہال‘ کا خطاب ملا۔

قتل کی افواہ

حکیم صاحب جیسے فرشتہ صفت انسان کی بھلا کس سے کیا دشمنی ہو گی! وہ تو ملک کی تعمیر و ترقی میں کسی صلے کی تمنا کیے بغیر اپنا حصہ ڈالے جا رہے تھے، لیکن سماج دشمن عناصر کے خلاف وہ کبھی چپ نہیں رہے۔ وہ ایک عرصے سے دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ملک و قوم کے ہمدرد حکیم محمد سعید کی زندگی میں کئی بار ان کے قتل کی افواہ گردش کرتی رہی۔

 15 دسمبر 1994 کو منظم انداز میں ان کے قتل کی افواہ پھیلائی گئی جس کی گونج بیرونِ ملک سنائی دی، حتیٰ کہ اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے فون کرکے ان کی خیریت دریافت کی۔ اگلے روز روزنامہ جنگ نے افواہ کی خبر حکیم صاحب کے بیان کے ساتھ شائع کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’کسی افواہ سے خوف زدہ نہیں، نہ ہی پاکستان چھوڑ کر کہیں جاؤں گا۔ میں نے حضورِ اکرم کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان سے ہجرت کی، اب پاکستان کی خدمت کرتے ہوئے جان دے دوں گا۔‘

حکیم محمد سعید کا قتل

17 اکتوبر 1998 کو نمازِ فجر کے بعد ابھی اندھیرا چھٹا نہ تھا کہ حکیم صاحب حسبِ معمول آرام باغ پر ہمدرد مطب پہنچ گئے۔ مطب کے روز وہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس روز بھی وہ باوضو اور روزے سے تھے۔ ان کے درجنوں مریض پہلے ہی مطب میں ان کے منتظر تھے۔

ابھی کار سے اتر کر معاون حکیم عبدالقادر اور منظور علی سے مصافحہ کیا ہی تھا کہ اچانک فائرنگ کی آواز گونجی۔ حکیم محمد سعید اپنے ساتھیوں سمیت نیچے گر پڑے۔ ان کے چہرے، سینے اور گردن پر تین گولیاں لگیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔

دہشت گردی کے اس واقعے میں معاون حکیم عبدالقادر قریشی اور چپراسی ولی محمد بھی جان سے چلے گئے۔ جنگ اخبار کے مطابق دہشت گردوں نے دو منٹ تک مسلسل فائرنگ کی۔ واقعے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے حکیم منظور اور ڈرائیور گن خان کے ابتدائی بیان کے مطابق اچانک فائرنگ کی آواز سے انہیں شارٹ سرکٹ کا گمان ہوا۔ نیچے گرنے کے باعث وہ حملہ آوروں کو نہیں دیکھ سکے۔

لیکن کیا واقعی موقعے پر موجود عینی شاہدین ٹارگٹ کلرز کو دیکھ نہیں سکے یا انہوں نے خوف کے تحت اپنی زبان بند رکھی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔

حکیم صاحب کی نمازِ جنازہ مسجدِ طیب میں ادا کی گئی، جس کی تعمیر اور توسیع میں حکیم صاحب کا بڑا حصہ تھا۔ اسی روز شام چار بجے وصیت کے مطابق مدینۃ الحکمت میں ان کی تدفین ہوئی۔

سرکار کی جانب سے تین روزہ سوگ کے اعلان اور شہر میں خوف و ہراس کی فضا کے باعث کراچی میں اگلے تین روز تعلیمی ادارے بند رہے، لیکن حکیم صاحب کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے ہمدرد پبلک سکول سے لے کر جامعہ ہمدرد اور طبیہہ کالج سمیت ہمدرد فاؤنڈیشن کے تمام تعلیمی اداروں میں ایک دن کی بھی تعطیل نہیں کی گئی۔

بہت سے مخالفین

حکیم محمد سعید نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ اپنے سفرنامے میں انہوں نے ہی سب سے پہلے عمران خان کو ’یہودیوں کا آلۂ کار‘ بھی قرار دیا تھا۔ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں ان کا نام سرِفہرست تھا۔ قتل کی واردات کے ساتھ ہی سیاسی اور سماجی حلقوں میں جو نام سب سے پہلے گردش میں آیا، وہ ایم کیو ایم کا تھا۔

نمازِ جنازہ ادا ہونے کے بعد صورت حال اس وقت سنگین ہو گئی جب مشتعل افراد نے مسلم لیگ ن کے وزیر حلیم صدیقی کا گھیراؤ کر لیا۔ ایک شخص نے ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور چلا کر کہا کہ حکیم سعید کے قتل کے ذمہ دار وزیراعظم ہیں جو مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ قتل کی ایف آئی آر وزیراعظم کے خلاف درج ہونی چاہیے۔

حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کو دیکھتے ہوئے حکومتی ارکان جنازے کو کاندھا دیے بغیر واپس روانہ ہو گئے، لیکن حلیم صدیقی نے جاتے جاتے صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا: ’لکھو! یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف قاتلوں کا ساتھی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکیم سعید کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اگلے ہی روز وزیراعظم نواز شریف حکیم سعید کی صاحبزادی سعدیہ راشد سے تعزیت کے لیے اسلام آباد سے کراچی پہنچے۔ سندھ حکومت کی جانب سے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کر دیا گیا، جو بہت بڑی رقم تھی۔ اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بھاری انعامی رقم کے اعلان نے شفاف تحقیقات کا راستہ روک لیا۔

سندھ پولیس نے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں ملزمان کی تعداد سے لے کر آمد اور فرار کا پورا نقشہ اور واقعے میں استعمال ہونے والی مبینہ گاڑی بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کر دیا۔

یہ گاڑی سات ماہ قبل ایک شہری سے چھینی گئی تھی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ گاڑی میں سے عامر اللہ نامی نوجوان کی دستاویزات سامنے آئیں جو ایم کیو ایم کا کارکن تھا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح چھاپہ مار کارروائیوں میں ایم کیو ایم کے درجنوں دیگر کارکنان بھی حراست میں لے لیے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے ایم کیو ایم سے مطالبہ کیا کہ تین دن کے اندر اندر مبینہ ملزمان، جو ایم کیو ایم کے کارکن ہیں، انہیں سرکار کے حوالے کیا جائے، بصورت دیگر سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا جائے گا۔ ’کوئی اتحادی جاتا ہے تو جائے، دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن ہو گا۔‘

تاہم ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ حکیم سعید کے قتل سے ان کا کوئی واسطہ نہیں اور وزیراعظم ان کی بات کے بجائے ایجنسیوں کی باتوں پر یقین کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے نامزد قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ ایم کیو ایم نے ن لیگ کو ’ٹاٹا بائے بائے‘ کر دیا، جس کا سیاسی نقصان مسلم لیگ ن کو بھگتنا پڑا۔ صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا اور ایجنسیوں کے تعاون سے شروع ہونے والے آپریشن نے ایم کیو ایم کو بھی شدید زک پہنچائی۔

قاتلوں کی شکل یاد نہیں

ملکی حالات میں ہلچل مچا دینے والے دہشت گردی کے اس واقعے میں اہم بات یہ تھی کہ واقعے کے عینی شاہدین نے مجرموں کی شناخت سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ انہیں قاتلوں کی شکل یاد نہیں۔ کیا واقعی ایسا ہی تھا؟ حد یہ ہے کہ پولیس نے چند گھنٹوں میں مبینہ طور پر جو گاڑی تلاش کی، وہ سات ماہ قبل مالک سے چھینی گئی تھی۔ اس شخص نے بھی یہی کہا کہ اسے واردات کرنے والوں کی شکل یاد نہیں۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ نمازِ فجر کے کچھ دیر بعد، جب روشنی پوری طرح نہیں ہوئی تھی، گولیوں کی بارش کے دوران قاتلوں کو پہچاننا تقریباً ناممکن تھا، لیکن گواہ ڈرتے تھے کہ گواہی دی تو بھی مارے جائیں گے اور اگر گواہی نہ دی تو بھی بخشے نہیں جائیں گے۔

واقعے میں زخمی ہونے والے حکیم محمد سعید کے ساتھی حکیم منظور علی وہ شخص تھے، جنہیں ان کے بقول، زبردستی مدعی بنا دیا گیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس بیان کے باوجود وہ قاتلوں کو نہیں دیکھ سکے۔

ان پر شدید دباؤ تھا کہ وہ عامر اللہ کو بطور قاتل پہچانیں جبکہ وہ اس بات سے انتہائی خوف زدہ تھے کہ ان کی جھوٹی گواہی پر کسی بے قصور کو سزا ملے۔ پولیس افسران نے شدید دباؤ ڈال کر انہیں جھوٹی گواہی پر مجبور کیا، جس کے تحت انہوں نے ایم کیو ایم کے کارکنان کو بطور ملزم شناخت کیا تھا۔

حکیم سعید کا قاتل کون تھا؟

قائدِ نونہال، لوگوں کے ہمدرد حکیم سعید کا قتل کس نے کیا؟ یہ سوال آج بھی تشنہ طلب ہے۔ حکومت ہی نہیں، استغاثہ اور ایجنسیوں نے بھی اس قتل کی کلی ذمہ داری ایم کیو ایم پر ڈالی، لیکن 28 سال سے ایم کیو ایم کا ایک ہی مؤقف ہے کہ حکیم سعید کے قتل کا الزام ان کے خلاف سازش تھی۔

1998 میں کراچی میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا۔ عوامی حلقوں میں ان کا بڑا ووٹ بینک ہونے کی وجہ سے 1988 سے وہ ہر حکومت کے اتحاد کی مجبوری بن چکے تھے، لیکن 90 کی دہائی میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کے مختلف ادوار میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد اور اتحاد ٹوٹنے کے بعد، ایم کیو ایم کو مافیا قرار دے کر کچلنے کے لیے ریاستی آپریشن بھی کیے گئے۔

اتحاد ختم ہونے کے بعد صوبے میں گورنر راج لگا کر ایم کیو ایم کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ ایم کیو ایم کے کارکنان عامر اللہ، شاکر احمد، فصیح جگنو سمیت سرکردہ کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

ابتدائی جے آئی ٹی میں عامر اللہ کو اس قتل سے بری الذمہ قرار دیا گیا تھا، لیکن جون 1999 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو سزائے موت سنائی۔ اسی دوران 12 اکتوبر 1999 کا فوجی انقلاب آ گیا۔ ایم کیو ایم صرف سیاسی جماعتوں کی مجبوری نہیں رہی تھی بلکہ سٹیبلشمنٹ کی نظروں میں کھٹکنے والی جماعت اب ’جسے پیا چاہے وہی سہاگن‘ کی عملی تصویر بن گئی۔

2001 میں پہلے سندھ ہائی کورٹ اور 2014 میں سپریم کورٹ نے بھی عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ وقت اور حالات نے یہ ثابت کیا کہ حکیم سعید کے قاتلوں کا کھرا جان بوجھ کر ایم کیو ایم کی طرف موڑا گیا۔ اس ہائی پروفائل قتل کے کسی بھی ملزم پر جرم ثابت نہیں ہو سکا۔

عینی شاہد حکیم منظور علی نے عدالت کو بتایا کہ ان پر دباؤ ڈال کر ملزمان کے خلاف جھوٹی گواہی لی گئی، کیونکہ اس سانحے کے وقت ان کا رخ مطب کی جانب تھا۔ گاڑیاں کب آئیں، کب گولیاں چلیں، کس نے چلائیں، کچھ پتہ نہیں چلا، یہ سب آناً فاناً ہوا تھا۔

تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مبینہ طور پر قتل کی وجہ وہ پلاٹ تھا، جس پر ہمدرد یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔

سوال یہ ہے کہ اگر گرفتار ہونے والے تمام ملزمان بے قصور تھے تو پھر ذمہ دار کون تھا؟ اور جو قصور وار تھے، وہ کیوں پکڑے نہیں گئے؟ کوئی تو تھا جو حکیم محمد سعید کو راستے کی دیوار سمجھتا تھا۔ ان عناصر کی نشاندہی اب تک کیوں نہ ہو سکی؟

28 برس بعد بھی یہ سوال تشنہ طلب ہے۔ وہ جو قوم کا ’ہمدرد‘ تھا، اس کا ہمدرد کوئی نہیں تھا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ