کراچی میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے ٹی وی میزبان امتیاز میر اتوار کو ہسپتال میں دم توڑ گئے۔
امتیاز میر سات روز تک لیاقت نیشنل ہسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد اتوار کو ان کے ساتھی صحافی نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔
ان کے معاون مزمل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’امتیاز میر کے جبڑے میں گولی لگی تھی جس کا ہسپتال میں گذشتہ روز (27 ستمبر) کو آپریشن ہوا، آپریشن کے بعد ان کی طبیعت بگڑنا شروع ہوئی جس کے بعد انہیں دوبارہ وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا اور دوران علاج وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے۔‘
کراچی کے علاقے ملیر میں ایک ہفتہ قبل 21 ستمبر بروز اتوار میٹرو نیوز کے اینکرپرسن امتیاز میر اپنے دفتر سے قائدآباد میں واقع گھر جا رہے تھے اور ان کی گاڑی ان کے بڑے بھائی محمد صالح چلا رہے تھے۔
راستے میں دو موٹرسائیکل سوار حملہ آوروں نے قومی شاہراہ پر ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امتیاز میر کے منہ اور سینے پر کئی گولیاں لگی تھیں اور انہیں لیاقت نیشنل اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
حملے میں ان کے بڑے بھائی بھی معمولی زخمی ہوئے تھے۔
23 ستمبر کو ان کے بھائی ریاض علی کی مدعیت میں سعود آباد تھانے میں مقدمہ درج کرایا گیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’دو موٹر سائیکل پر چھ حملہ آور موجود تھے جنہوں نے اندھا دن فائرنگ کی تھی۔‘
امتیاز میر کے معاون مزمل کے مطابق: ’اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن ان کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے جس کے بعد صورت حال واضح ہو جائے گی۔ تاہم ان کی نماز جنازہ پیر کو ملیر کراچی میں ادا کی جائے گی اور تدفین جمال ابراہیم، قائد آباد مرغی خانہ سٹاپ کے پاس قبرستان میں ان کی والدہ کے پہلو میں کی جائے گی۔‘
سہیل شبیر ان کے ساتھی صحافی اور قریبی دوست ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث تاحال ملزمان گرفتار نہ ہو سکے اور ان کے لواحقین لاش شاہراہ فیصل پر رکھ کر احتجاج کرنے پر غور کررہے ہیں۔‘
صحافی شجاعت قریشی کا کہنا ہے کہ ’یہ ان کے لیے غم کی گھڑی ہے، امتیاز میر نہایت ملنسار انسان تھے وہ گذشتہ سات دنوں میں ان کی خیریت کے لیے ہسپتال میں موجود بھی رہے لیکن امتیاز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔‘
ایس ایس پی کورنگی طارق نواز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امتیاز میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ذمہ داری ایک گمنام تنظیم نے سوشل میڈیا پر قبول کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تنظیم پہلی بار سامنے آئی ہے، اس لیے اس مرحلے پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ دعویٰ درست ہے یا ایسی کسی تنظیم کا حقیقت میں وجود بھی ہے۔‘
ایس ایس پی نے مزید کہا کہ پولیس تمام پہلوؤں سے تفتیش کر رہی ہے اور جیسے ہی کوئی مصدقہ معلومات سامنے آئیں گی انہیں شیئر کیا جائے گا۔
صحافی امتیاز میر کچھ عرصہ قبل ذاتی حیثیت میں اسرائیل کا دورہ کر کے آئے تھے اور وہ اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں پروگرامز کر چکے تھے۔
انہوں نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکاونٹس پر اپنی دورہ اسرائیل کی تصاویر بھی پوسٹ کیں تھیں۔