’قائد جمہوریت‘ نوابزادہ نصر اللہ خان کے لیے نشان امتیاز کا اعلان

سینیئر صحافی سلمان غنی کے مطابق: ’نصر اللہ خان  پاکستان کے واحد سیاست دان تھے جنہوں نے سیاست میں آکر جائیدادیں بنانے کی بجائے بیچ کر اخراجات چلائے۔‘

 19 مئی 2003 کو لی گئی اس تصویر میں پاکستان کے سینیئر سیاست دان نوابزادہ نصر اللہ خان (مرحوم) کو اسلام آباد میں ایک پارٹی میٹنگ کے لیے آتے ہوئے دکھایا گیا ہے (جیول صمد/ اے ایف پی)

14 اگست کو یوم آزادی کے موقعے پر صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے 263 ملکی و غیر ملکی شخصیات کو سول ایوارڈز دینے کا اعلان کیا گیا ہے، جو 23 مارچ 2026کو ہونے والی تقریب میں دیے جائیں گے، جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کا نام بھی شامل ہے۔

’قائدِ جمہوریت‘ کہلانے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کو نشان امتیاز دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

نوابزادہ نصر اللہ کی سیاسی و جمہوری خدمات کا اعتراف سیاست دانوں کے علاوہ غیر سیاسی حلقے بھی کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق 1951کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے، نوابزادہ نصر اللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا۔

انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے پر امن جدوجہد شروع کی۔ اس دوران ان پر بغاوت کا مقدمہ بھی بنا، لیکن انہوں نے اپنی آواز بلند کیے رکھی اور ایوب خان کو اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔

یہی صورت حال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی، جب نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی اور انہیں مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔

پھر جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے مارشل لا میں بھی سیاسی جماعتوں اور قائدین کے ساتھ انہوں نے بھرپور کامیاب تحریکیں چلائیں۔

سینیئر صحافی سلمان غنی کے مطابق: ’نصر اللہ خان  پاکستان کے واحد سیاست دان تھے جنہوں نے سیاست میں آکر جائیدادیں بنانے کی بجائے بیچ کر اخراجات چلائے۔‘

بقول سلمان غنی: ’مذاکرات کے ذریعے بڑے بڑے سیاسی بحران ٹالنے کا فن صرف ان ہی کے پاس تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو حالیہ سیاسی تلخیاں جنم نہ لیتیں کیونکہ وہ ٹیبل ٹاک میں ہی تناؤ ختم کرنا جانتے تھے۔‘

 

نوابزادہ نصر اللہ کی سیاسی زندگی

سیاسی حلقوں میں نوابزادہ نصر اللہ کو غیر متنازع طور پر ’قائد جمہوریت‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔

ان کے دفتری ریکارڈ کے مطابق وہ کچھ عرصہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے اور انہیں شاعری کا بھی شوق تھا۔

قیامِ پاکستان سے قبل ہی انہوں نے مجلس احرار الاسلام سے سیاست کا آغاز کیا اور 28 سال کی عمر میں اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔

1950 میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر وہ اپنے آبائی علاقے خان گڑھ سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعدازاں اختلافات ہوئے تو مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ بنائی۔

نوابزادہ نصر اللہ خان 1962 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962 میں ہی حزب اختلاف کا اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘ تشکیل دے دیا۔

ریکارڈ کے مطابق مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل ایوب نے صدارتی انتخاب کا اعلان کیا تو تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔

نوابزادہ نصر اللہ خان نے سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت محترمہ فاطمہ جناح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی، پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد میں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی، لیکن وہ ایوب خان کے مقابلے میں شکست کھا گئیں۔

سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’نوابزادہ نصر اللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967 میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل دیا۔ انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’بابائے جمہوریت جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورت حال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے۔ کسی بھی طرح اپنے بیانات اخبارات کو بھجواتے تاکہ لوگوں تک ان کا پیغام پہنچتا رہے۔ اسی دوران انہوں نے آمریت کے خلاف ’کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیں‘ نظم لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔‘

سلمان غنی کے مطابق: ’نوابزادہ نصر اللہ خان نے 1988 اور 1993کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا، انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، این ڈی اے، اے آر ڈی، اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا، جس میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو متحد کیا۔ ان ہی کی مشاورت سے میثاق جمہوریت جیسا معاہدہ طے پایا، جس کے بعد بے نظیر اور نواز شریف پاکستان واپس آئے۔‘

بقول سلمان: ’نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے، لیکن انہوں نے کبھی کسی ادارے یا سیاسی قیادت کے بارے میں غیر اخلاقی جملہ تک ادا نہیں کیا۔ سیاسی جدوجہد میں وہ تشدد اور اشتعال کے سخت مخالف تھے ہمیشہ پولیس اہلکاروں کے سامنے بھی مزاحمت کے مخالف تھے۔ کہتے تھے یہ ہمارے بچے ہیں اپنی نوکری کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’نوابزادہ نصر اللہ خان کا سیاسی دفتر لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب تھا، جہاں ہر ایک کے لیے بلا امتیاز داخلے کی اجازت تھی۔ ہم سب سیاسی رپورٹر وہاں جاتے تو ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا، جو بڑے سیاسی لیڈروں کے ساتھ تھا۔ کھانے کی بڑی میز سب سے پہلے ان کے دفتر میں دکھائی دی، جہاں چھوٹے بڑے سب اکھٹے کھانا کھاتے تھے۔‘

نوابزادہ نصر اللہ خان کی ذاتی زندگی

لاہور لائبریری کے ریکارڈ کے مطابق نوابزادہ نصر اللہ خان 13 نومبر 1916 کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان مجسٹریٹ تھے۔ وہ ابھی چھ برس کے ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہوگئے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے ہی حاصل کی۔ پھر ایچیسن کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجویشن میں داخلہ لے لیا، لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔

اس کے بعد سیاسی زندگی میں بھر پور کردار ادا کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ علیل رہے اور  27 ستمبر 2003 کی رات وہ انتقال کر گئے۔ انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔

ان کے بڑے صاحبزادے نوابزادہ منصور علی خان بھی 1988 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو رہے ہیں۔ آخری بار وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 2018 میں پانچویں بار ایم پی اے بنے، لیکن اپنے والد کی طرح سیاسی منظر نامے پر وہ اپنا خاندانی کردار ادا نہیں کر سکے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان