کراچی میں ڈکیتی کے الزام میں تشدد کے بعد زندہ جلائے گئے نوجوان کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ’ڈکیت‘ نہیں تھا اور اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی بھی تھی تو اسے زندہ نہیں جلانا چاہیے تھا۔
یکم دسمبر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں مشتعل ہجوم نے ایک نوجوان کو تشدد کے بعد بجلی کے کھمبے سے باندھ کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس نوجوان پر ڈکیتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ویسٹ طارق مستوئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈاکو کی شناخت ساجد کے نام سے ہوئی ہے، جو ناظم آباد کا رہائشی تھا۔‘
دوسری جانب ساجد نامی نوجوان کے والد زرین ساجد نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ’میرا بیٹا ڈکیت نہیں تھا۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’میں اسے کام پر نہ جانے پر ڈانٹتا تھا، غصے میں ساجد گھر چھوڑ کر چلا گیا اور گذشتہ 15 روز سے گھر نہیں آیا تھا کہ اچانک 16ویں روز مجھے میرے بھائی نے خبر دی کہ ساجد ہسپتال میں ہے۔‘
زرین نے بتایا کہ جب انہوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا کلپ دیکھا، جس میں ان کے بیٹے کو تشدد کے بعد جلایا گیا ’تو رات بھر بے چینی کی حالت میں رہا۔‘
والد نے درد بھری آواز میں کہا: ’میرا بیٹا بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے گولی مار دو لیکن کسی نے نہیں سنی۔ اس کو زندہ نہیں جلانا چاہیے تھا۔ میرے بیٹے پر ظلم کیا گیا ہے۔ اس سے اگر نادانی میں کوئی غلطی بھی ہو گئی تھی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی اور اسے پولیس کے حوالے کرتے لیکن ایسی درد ناک سزا نہیں دینی چاہیے تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زرین نے بتایا کہ ساجد پڑھا لکھا نہیں تھا اور چھ بہن بھائیوں میں اس کا دوسرا نمبر تھا۔ ’میں اپنے بیٹے پر نظر رکھتا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے، کیا کر رہا ہے۔ میں والد ہوں میری نظریں ہوتی تھیں میرے بیٹے پر لیکن ان 15 دن میں وہ گھر نہیں آیا۔‘
نوجوان کو زندہ جلائے جانے اور مبینہ ڈکیتی کے دوران عبدالحنان نامی ایک شہری کے قتل کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، جہاں درخواست گزار ایڈووکیٹ بشریٰ عباس نے چار دسمبر کو سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ علاقہ مکینوں نے ایک نامعلوم شخص کو ڈاکو قرار دے کر بجلی کے کھمبے سے باندھا، تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، جبکہ ان کے بقول پولیس موقعے پر موجود ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی اور کسی قسم کی فوری کارروائی نہ کی۔
درخواست گزار نے اس واقعے کو ’قانون کے منافی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس نے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی مثال قائم کی ہے۔‘
سندھ ہائی کورٹ نے واقعے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔
اس موقعے پر جسٹس نثار نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کوئی ڈاکو بھی ہو تو عدالتیں موجود ہیں، پھر اسے جلایا کیوں گیا؟ اور جب یہ سب ہو رہا تھا تو پولیس کہاں تھی؟‘
ہائی کورٹ نے ایس ایس پی کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم بھی دیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ کے مطابق کسی کے لیے سزا کا تعین کرنا عام شہریوں کا اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کسی بھی شخص کو جرم ثابت ہونے سے قبل عدالت کی نظر میں صرف ملزم سمجھا جاتا ہے، مجرم نہیں۔‘
بقول منیزہ: ’جرم ثابت ہونے تک معصومیت کا حق ہر شہری کو حاصل ہے اور عام شہریوں کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کے لیے سزا کا تعین کریں، چاہے اس پر الزام کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو۔‘