کراچی: ’ڈکیت‘ کو زندہ جلانے پر سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ علاقہ مکینوں نے ایک نامعلوم شخص کو ڈاکو قرار دے کر  پہلے تشدد کیا اور پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

پاکستان کے پولیس کمانڈوز 17 فروری 2025 کو کراچی میں ایک سڑک پر کے ساتھ گشت کر رہے ہیں (آصف حسن/ اے ایف پی)

کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک ’ڈکیت‘کو جلانے کے  واقعے پر بدھ کو سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں متعلقہ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔

یکم دسمبر کو اورنگی ٹاؤن میں ایک ’ڈکیت‘ کو ہجوم کے ہاتھوں زندہ جلانے اور شہری عبدالحنان کے قتل کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں ہے جہاں ایڈووکیٹ بشریٰ عباس نے پولیس کی مبینہ غفلت اور شہریوں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل پر اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی کی درخواست دائر کی ہے۔

ایڈووکیٹ بشریٰ عباس نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ یکم دسمبر کو پیش آنے والا یہ واقعہ نہ صرف قانون کے منافی ہے بلکہ اس نے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی مثال قائم کی ہے۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ علاقہ مکینوں نے ایک نامعلوم شخص کو ڈاکو قرار دے کر بجلی کے کھمبے سے باندھا، تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، جبکہ ان کے بقول پولیس موقع پر موجود ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی اور کسی قسم کی فوری کارروائی نہ کی۔

تاہم ایس ایس پی ویسٹ طارق مستوئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ڈاکو کی شناخت ساجد کے نام سے ہوئی ہے جو ناظم آباد کا رہائشی تھا۔‘

لیکن درخواست گزار کا کہنا ہے کہ کسی بھی شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی کسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ عدالتوں کے کام  کو اپنے ہاتھ میں لے کر سزا کا فیصلہ کرے۔

ایڈووکیٹ بشریٰ عباس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہوں نے معاشرے خصوصاً بچوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے اور علاقے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوئی۔

پولیس تھانے میں درج مقدمات کی تفصیل

یہ درخواست ایک ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب اورنگی ٹاؤن کے اسی واقعے میں پولیس نے تین علیحدہ مقدمات درج کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلا مقدمہ مقتول عبدالحنان کے سسر گل محمد خان کی مدعیت میں یکم دسمبر کو تھانہ اورنگی ٹاؤن میں درج ہوا جس میں مدعی نے بیان دیا کہ عبدالحنان صبح آٹھ بجے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا کہ گلی میں دو موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے اسے اسلحے کے زور پر روک کر لوٹنے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر ایک ڈاکو نے اسے گولی ماری۔

مدعی کے مطابق اطلاع ملنے پر وہ عباسی شہید اسپتال پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کا داماد عبدالحنان اور زخمی ڈاکو دونوں دم توڑ چکے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق دوسرا مقدمہ اس ڈاکو کے قبضے سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہونے پر درج کیا گیا جو ہجوم کے تشدد کے بعد دم توڑ گیا اور تیسرا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں مشتعل ہجوم کے خلاف رجسٹرڈ کیا گیا ہے، جس میں تقریباً 30 سے 35 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن پر ماورائے عدالت قتل، تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

پولیس نے واقعے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے منگل  کو اورنگی ٹاؤن کے ایس ایچ او یوسف مہر کو غفلت برتنے کے الزام میں معطل کر دیا ہے، جب کہ فرار ہونے والے دوسرے ڈاکو کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یکم دسمبر کی صبح اطلاع موصول ہونے پر نفری موقع پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ دو ڈاکوؤں نے عبدالحنان کو مزاحمت پر گولی مار دی تھی اور اسی دوران مشتعل شہریوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنا کر آگ لگا دی۔

ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے بتایا کہ ’ اے ایس آئی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے امید ہے کہ مفرور ڈاکو بھی جلد گرفتار ہو جائے گا۔ تاہم مرنے والے ڈاکوں کا پچھلا ریکارڈ بھی تلاش کیا جا رہا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان