پنجاب کے سندھ میں داخل ہونے والے جنوبی علاقوں میں کچے کے ڈاکوؤں کی گذشتہ کئی سالوں سے لوٹ مار جیسے واقعات کے پیش نظر سکھر موٹر وے رات میں نو گو ایریا قرار دیتے ہوئے گاڑیوں کو پولیس سکیورٹی میں گزارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ملتان تا سکھر رحیم یار خان میں کچے کے علاقے سے گزرنے والی موٹر وے پر رات کے وقت ڈاکوؤں کی مسلسل لوٹ مار اور اغوا کی وارداتوں کے باعث 25 کلو میٹر کا علاقہ غیر محفوظ ہو گیا۔
یہی وجہ ہے کہ پولیس اعظم پور ریسٹ ایریا میں مسافر گاڑیوں کو جمع کر کے سکیورٹی میں ہر گھنٹے بعد گزارنے مجبور ہے۔
ترجمان رحیم یار خان پولیس ذیشان رندھاوا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’موٹر وے پر اعظم پور سے کشمور انٹر چینج تک کچے کے ڈاکو مسافروں سے لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتیں کرتے ہیں۔ ان کے خلاف پولیس کی کارروائیاں مسلسل جاری رہتی ہیں۔
’لیکن مسافروں کی حفاظت کے لیے اس 25 کلومیٹر کے ایریا سے رات سے صبح تک پولیس نفری کی آٹھ گاڑیوں کے ہمراہ یہاں سے ہر گھنٹے بعد گاڑیوں کو اکھٹا کر کے گزارا جاتا ہے۔‘
مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کی مشکلات
محکمہ ہائی وے رحیم یار خان کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کچے کے علاقے سے گزرنے والی شاہرواں پر رات کے وقت مسلح ڈاکو فائرنگ کرتے، گاڑیاں لوٹتے اور شہریوں کو اغوا کر لیتے ہیں۔ بھونگ، جمال دین والی، صادق آباد اور ماچھکہ تک کا علاقہ عام شہریوں کے لیے نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔
’ڈاکوؤں کی موٹر وے پر فائرنگ اور مسافروں کے اغوا کے بعد سے پولیس اپنی حفاظت میں گاڑیوں کو گزارنے پر مجبور ہے۔ حیران کن طور پر سندھ میں داخلے کے بعد گھوٹکی سے سکھر موٹروے تک سفر محفوظ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ گڈو انٹرچینج سے سکھر تک پولیس اور رینجرز کا مشترکہ گشت رہتا ہے۔‘
سکھر سے لاہور کے درمیان ٹرانسپورٹ سروس چلانے والے ٹرانسپوٹر اعظم خان (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’صادق آباد سے گھوٹکی تک موٹر وے دونوں طرف ویران ہے کہیں گھنے جنگل تو کہیں دریائی علاقہ ہے۔ اس ایریا سے گزرنے والی بسوں اور گاڑیوں کو لوٹنا یا اغوا کرنا کچے کے ڈاکوؤں کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس ایریا میں پولیس کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش تو کی جاتی ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے۔ ڈاکوؤں نے کئی بار ہمارے ڈرائیور بھی اغوا کیے جنہیں پولیس کی مدد سے بازیاب کروایا گیا۔
ترجمان رحیم یار خان پولیس ذیشان رندھاوا کہتے ہیں کہ ’فورس مسافروں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے فکر مند ہے اور خطرناک علاقوں میں ٹریفک چلانے کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتہ عملے اور بلٹ پروف گاڑیاں تعینات کی گئی ہیں۔
’ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی جاری ہے ایک بار علاقے کو محفوظ قرار دے دیا جائے تو ٹریفک معمول کے مطابق چلے گی قافلوں میں نہیں۔‘
گھوٹکی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس نے گذشتہ سال جنوری اور فروری میں عارضی طور پر قافلے استعمال کیے، لیکن اب عارضی چوکیوں اور بھرپور گشت پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
ڈاکوؤں کا سرینڈر
سندھ حکومت کی ’سرینڈر پالیسی 2025‘ کے تحت بدھ کو شکارپور ایس ایس پی دفتر میں 70 سے زائد مطلوب کچے کے ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال دیے اور 200 سے زائد ہتھیار جمع کروائے۔
اس موقع پر وزیر داخلہ سندھ نے سرینڈر کرنے والے ڈاکوؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے قابلِ ستائش قدم اٹھایا ہے۔ اپنی سزا مکمل کریں اور قانون کے پابند شہری بن کر واپس آئیں۔‘
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن نے باقی گروہوں پر بھی زور دیا کہ ’وہ پالیسی قبول کریں کیونکہ یہ کچے کے علاقوں میں مقیم خاندانوں کے لیے حمایت فراہم کرے گی، بینظیر انکم سپورٹ سے لے کر سڑکیں، سکول، صحت کی سہولیات، وٹرنری خدمات اور بے گھر کسانوں کے لیے زمین تک دی جائے گی۔ سرینڈر کریں، ورنہ آپ کو اپنے ٹھکانے میں ہی ختم کر دیا جائے گا۔‘
سندھ پولیس افسر غلام نبی میمن نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ 2012 میں شروع ہونے والے ہنی ٹریپ آپریشن کے بعد سے مسلسل کریک ڈاؤن کے سبب اغوا برائے تاوان کا طویل سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔
پولیس کارروائیوں کے دوران 171 ڈاکو مارے گئے اور 421 زخمی گرفتار ہوئے۔282 مشتبہ افراد نے سرینڈر کی درخواست دی اور بدھ کی تقریب میں 70 سے زائد کی منظوری دی گئی اور 209 ہتھیار جمع کروائے گئے۔